بڑے عرصے کے بعد شنید ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ 2022 میں یہ الیکشن ہو سکتے ہیں۔ 2023 میں عام الیکشن کا سال ہے۔ الیکشن سے پہلے بلدیاتی الیکشن کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں بلدیاتی الیکشن کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ سب سے پہلے ایوب خاں نے بنیادی جمہوریت کے الیکشن کروائے اور یونین کونسل سطح پر الیکشن ہوئے۔ ان بلدیاتی نمایندوں سے ووٹ لیکر ایوب خاں صدر بن گئے۔ جب ضیاالحق نے 1977 میں اقتدار سنبھالا تو 1979 میں بلدیاتی الیکشن ہوئے۔یہ الیکشن غیر جماعتی تھے۔ جو افراد ان الیکشن میں ضلع کونسل اور تحصیل کونسل کے چیئر مین بنے وہ لوگ 1985 کے الیکشن میں ممبر صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی بنے۔ 1985 کے الیکشن غیر جماعتی تھے اور ان الیکشن کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ جو خلا 1985 کے الیکشن سے بنا آج تک پیپلز پارٹی اس سے نہیں نکل سکی۔ ضیا الحق نے اپنی مسلم لیگ بنائی اور پیپلز پارٹی مخالف لوگ اس میں شامل کئے۔ 1979 کے جو بھی بلدیاتی الیکشن ہوئے ان میںمسلم لیگ کے لوگ پنجاب میں اقتدار میں آئے۔ جب مشرف نے 1999 میں اقتدار سنبھالا تو اسنے بھی بلدیاتی انتخابات کروائے ان ا لیکشن میں پرویز مشرف کی حمایت یافتہ جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے لوگ اقتدار میں آئے۔2002 میں پاکستان مسلم لیگ ق نے اقتدار سنبھالا۔۔ چند اضلاع میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگوں نے اقتدار سنبھالا۔ 2008 میں نواز شریف کی واپسی ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ نواز دوبارہ فعال ہوئی۔ 2008 کے بعد جو بھی بلدیاتی الیکشن ہوئے ان میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے لوگ اقتدار میںآئے۔ پاکستان کا الیکشن کا نظام اب ٹھیکیداری نظام کے زیر اثر چلتا ہے۔ پہلے پہل ٹھیکیدار لوگ ان الیکشن میں امیدوار کو سپورٹ کرتے تھے۔ انکے الیکشن میں خرچہ اٹھاتے تھے۔ اور پھر ان لوگوں سے ٹھیکے لیکر اپنیاخراجات سود سمیت واپس لیتے تھے۔ اب کچھ تبدیلی آ گئی ہے۔ اب کئی جگہ پر تحصیل ناظم اور ضلعی ناظم خود ٹھیکیدار بن گئے ہیں۔ انکے فرنٹ میں ٹھیکیداری کرتے ہیں۔ اور چند جگہ پر ٹھیکیدار لوگ خود امیدوار بن گئے ہیں۔ اب وہ کسی ناظم کے رحم وکرم پر نہیں ہیں۔ وہ خود اقتدار میں ہیں خود ہی ٹھیکیدار ہیں۔بہت سارے اضلاع میں آپکو دونوں ماڈل مل جائیں گے۔ ۔اگر آپ ٹھیکیدار کی عزت سے واقف نہیں تو فلم پاکیزہ دیکھ لیں آپکو ٹھیکیدار اور خاندانی رئیس کے فرق کا پتہ چل جائے گا۔ ان ٹھیکیداروں نے ملک اور اداروں کا جو حال کر دیا ہے گزشتہ چالیس سال میں سب کے سامنے ہے۔ اب جو بلدیاتی الیکشن ہونگے انکے بعد ملک کا سیاسی ماحول بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو ان الیکشن سے سب سے زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے جس کی بلدیاتی سطح پر کوئی تنظیم نہیں ہے۔ گزشتہ کنٹونمنٹ میں ہونے والے الیکشن اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا کمزور پوائنٹ بلدیاتی سطح پر ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے مردہ گھوڑے میں ایک بار پھر جان پڑ سکتی ہے ، پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس اب بھی کئی اضلاع میں مضبوط امیدوار موجود ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز بلدیاتی سطح پر سب سے مضبوط جماعت ہے۔ ان الیکشن کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز ایک دفعہ پھر مضبوط جماعت کے طور پھر ابھر سکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا ایک مسئلہ ہے ۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے مضبوط بلدیاتی نمائندے حمزہ شہباز کے اثر میں ہیں ان لوگوں کا مریم نواز سے رابطہ اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا حمزہ شہباز سے۔ اگر مسلم لیگ نواز کی بلدیاتی الیکشن کی مہم کی سربراہی حمزہ شہباز کے پاس ہوئی تو یہ پاکستان تحریک انصاف کے لئے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔دوسری طرف چوہدری برادران بھی بلدیاتی الیکشن کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ پنجاب میں یہ الیکشن عام طور پر برادر ی کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔ چوہدری بردران کو پنجاب کی ایک بڑی برادری کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ عمران حکومت میں پچھلے تین سال ترقیاتی کاموں کا بہت فقدان رہا ہے۔ سڑکوں کی حالت سارے پنجاب میں قابل رحم ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ بھی بہت اثر انداز ہو سکتا ہے۔ دیہات میں کھاد کی قیمتوں میںاضافہ ایک بڑا فیکٹر ہو سکتا ہے۔ گزشتہ تین سال میں اجناس کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے جس کا فائدہ کسان کو ہوا ہے مگر ڈی اے پی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔ مزدور کی اجرت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا مگر ضروریات زندگی کی قیمت میں اضافہ بہت زیادہ ہے۔ شہروں میں مہنگائی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ ان الیکشن میں 2023 کے الیکشن کے لئے ایک ٹرینڈ بھی سیٹ ہو سکتا ہے۔ ابھی بلدیاتی نظام کا نیا بل آئے گا تو پتہ چلے گا کہ س حد تک اختیارات عوامی نمایندوں کو ملیں گے۔ شنید ہے کہ ٹاون کمیٹی اور میونسپل کمیٹی والہ نظام قریب رخصت ہے۔ ڈسٹرکٹ کونسل اور تحصیل کونسل والا نظام ہو گا۔ شہروں میں نیبر ہڈ کونسل۔ چند بڑے شہروں میں میٹرو پولیٹین کونسل بنے گی۔ میئر اور ڈپٹی میر کے لئے ڈائرکٹ ووٹ ہوگا۔ ڈائرکٹ ووٹ ہونے سے کرپشن کا خاتمہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ پیسے کا استعمال کم ہو گا۔ ممبروں کی بولی لگنے کے چانس کم ہونگے۔ ہارس ٹریڈنگ خاتمہ ہو گا۔ دیکھتے ہیں عالم غائب سے کس کا ظہور ہوتا ہے، نمائندے یا ٹھیکیدار۔