وزیراعظم پاکستان عمران خان نے درست طور پر متحدہ اپوزیشن کا شکریہ ادا کیا تھا،جس نے تحریک انصاف کو گہری نیند سے جگایا ہے اور ان کی پارٹی کو دوبارہ کھڑا کر دیا ہے۔ البتہ وزیراعظم نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی پارٹی گہری نیند میں کیوں سو رہی ہے اور کیوں اس طرح لیٹ گئی تھی کہ اپوزیشن کو انہیں کھڑا کرنے کے لیے ایک پوری تحریک چلانی پڑی۔ چشم تصور سے دیکھیں کہ اگر اپوزیشن یہ تحریک نہ چلاتی اور تحریک انصاف کی حکومت اسی رفتار سے چلتی رہتی، جس سے پچھلے ساڈھے تین سال چلتی رہی ہے اور اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرلیتی تو اس بات کا کتنے فیصد امکان تھا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آتی۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے حصہ اول کے نتائج دیکھنا ضروری ہیں، جس صوبے میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت ملی تھی وہاں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اپوزیشن کی تحریک کے بعد تحریک انصاف کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ آج خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے حصہ دوئم کے نتائج سامنے آ رہے ہیں، جس میں غیر حتمی اور غیر رسمی نتائج کے مطابق 65 تحصیلوں میں سے 35 تحصیلوں میں تحریک انصاف کو سنہری کامیابی ملی ہے۔ باقی 30 تحصیلوں میں جے یو آئی‘ اے این پی‘ پیپلزپارٹی‘ ن لیگ اور جماعت اسلامی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اس ساری کامیابی کا سہرا اپوزیشن کی حالیہ تحریک کے سر ہے ۔ورنہ تحریک انصاف کو بلدیاتی انتخابات کے حصہ اول سے بھی بری شکست سے دوچار ہونا پڑتا۔ امید ہے کہ آئندہ اڑتالیس گھنٹے میں تحریک عدم اعتماد کا حتمی نتیجہ سامنے آ جائے گا۔ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو عمران خان ان کے لیے ایک نے چیلنج کی صورت میں سامنے کھڑا ہے۔ اگر عمران خان حکومت میں رہنے میں کامیاب ہو گئے تو چیلنج نسبتاً زیادہ بڑا ہوگا۔ اپوزیشن انہیں چین سے حکومت نہیں کرنے دے گی اور اگر وہ اپنے موجودہ طرز حکومت کو برقرار رکھتے ہوئے پانچ سال پورے کر گئے ،تو ان کی مقبولیت کا گراف دوبارہ نیچے گرنے کا شدید خطرہ ہے۔ اگر اپوزیشن انہیں حکومت سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی تو عمران خان ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی حیثیت منوا سکتے ہیں اور ایک نئی مقبولیت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہیں کافی حد تک اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان ہو چکی ہے لیکن اپوزیشن میں چند ماہ گزارنے سے انہیں سوچ وبچار کا بہتر موقع ملے گا۔ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں خاص احتیاط برتنا ہو گی کہ وہ حالات کو اس رخ پر نہ لے جائیں کہ سیاست کی بساط ہی لپٹ جائے۔ اپوزیشن کا کردار انہیں نہایت سنجیدگی اور متانت سے ادا کرنا ہوگا۔ ان کے پاس غلطی اور جذباتیت کی گنجائش نہیں ہے۔ عمران خان کو بغور جائزہ لینا ہو گا کہ ان کے طرز حکومت میں کیا خامیاں تھیں کہ انہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ان کے طرز حکومت کا جائزہ لینے کی خصوصی ضرورت ہے۔ عمران خان نے یہ صوبہ ایک ایسے شخص کے سپرد کر رکھا تھاجو قطعاً اسے درست طور پر نہ چلا سکا۔ عمران خان کی اس ضد نے آخر کار اپنا رنگ دکھایا اور ان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب میں بیوروکریسی کو عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر دو تین مہینے کے بعد چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس بدل دیئے گئے، جس نے عجیب و غریب کہانیوں کو جنم دیا۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او تبدیل کئے گئے۔ اس سے نہ صرف بیوروکریسی حکومت کے خلاف ہو گئی بلکہ کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم ہو گئے۔ وزیراعظم نے پراسرار وجوہات کی وجہ سے اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ وزیراعظم پرمختلف قسم کے الزامات بھی لگے۔ عمران خان کے چاہنے والے لوگ یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ وزیراعظم کسی ایسی سوچ کا شکار ہوسکتا ہے ۔ ان کے حکومت میں نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی کہانیاں مزید شدت کے ساتھ سامنے آئیں گی۔ وزیراعظم کو ان کہانیوں پہ غور کرنا ہوگا اور ان پر بے لاگ تحقیق کرنا ہوگی تاکہ اس کا سدباب ہو سکے۔ ان کا چال چلن ان کے اس فلسفے کی نفی کرتا نظر آتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی طاقت کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔لوگ وہ نہیں دیکھتے جو آپ تقریروں میں کہتے ہیں‘ وہ آپ کا عمل دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر لوگ عمران خان کی دیانت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان کی ٹیم کے بارے میں متضاد رائے پائی جاتی ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ عمران خان اپنی ٹیم کے ہر رکن کے بارے میں آزادانہ تحقیق کریں کہ وہ کتنا دیانتدار ہے۔ افسوس کہ حکومت میں رہتے ہوئے ان کے پاس نادر موقع تھا کہ وہ حکومتی ایجنسیوں سے بھی مدد لے سکتے تھے لیکن انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب یہ مشق پہلے سے مشکل تر ہو گی۔ اقتدار میں وہ باقی حکمرانوں کی طرح اپنے چند نام نہاد وفاداروں کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکے۔ وہ زیادہ تر اسلام آباد اور لاہور تک محدود ہے۔ وہ جب بھی کراچی یا کوئٹہ تشریف لے گئے چند گھنٹوں میں واپس تشریف لے آئے۔ اپنے اتحادیوں سے ان کا رابطہ ہمیشہ بالواسطہ رہا اور ان کے نام نہاد وفاداروں نے انہیں اصل حقائق کی خبر نہ ہونے دی۔ کراچی اور سندھ کی ترقی کے لیے ان کی کارکردگی بہت ناقص رہی۔ بلوچستان کو قومی دائرے میں لانے کے لیے جس بلاواسطہ تعلق داری کی ضرورت تھی وہ مفقود نظر آئی، جس اسمبلی میں وہ روزانہ جانے کے وعدے کیا کرتے تھے وہ شاذو نادر ہی وہاں جاتے تھے۔ اگر انہوں نے نوازشریف کا اسمبلی سے غیر حاضری کا ریکارڈ توڑا نہیں تو برابر ضرور کر دیا ہوگا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ان کی طاقت کا منبہ پارلیمنٹ ہے نہ کہ اداروں سے قربت۔ وزیراعظم کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ وفاداری کبھی یکطرفہ نہیں ہوتی۔ جن لوگوں نے آپ کی پارٹی کو طاقت بخشی اور اپنے ذاتی جہاز میں آزاد ممبران کو بھر بھر کر آپ کی پارٹی میں لائے وہ اس سلوک کے مستحق نہیں تھے۔ تحریک انصاف کا لیڈر اگر انصاف نہیں کرے گا تو ملک میں انصاف کہاں سے آئے۔ جناب وزیراعظم غور و فکر کریں اور اپنی غلطیاں پہچانیں۔ اگر آپ اس ٹیم اور اس طرز حکومت کے ساتھ دوبارہ بھی اقتدار میں آ گئے تو حتمی کامیابی آپ کو نہیں ملے گی۔ واعظ نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭