دیر آئید درست آئید ۔ آج یوم انتخاب ہے۔کوئی ایسا گھر، گلی، چوراہا یا کھمبا نہیں ہوگا جس پر امیدواروں نے اپنے جھنڈے، پینافلیکس، بینرز یا اشتہار نہ لگا رکھے ہوں۔میڈیا کوریج کی بھی انتہا دیکھنے کو ملی۔ جلسوں کی میراتھن کوریج،کالم، سروے، نیوز رپورٹس اور سینکڑ وں ٹاک شوز۔کل صبح اٹھ کر مشاہدہ کریئے گا کہ ہارنے والے امیدواران کے بینر اورجھنڈے اتر چکے ہونگے۔رات گئے نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی شکست خوردہ امیدواروں کے سرگرم سپورٹرز رات کی تاریکی میں خود ہی فلیکس اور بینر اتار رہے ہونگے۔ باقی مانندہ کو میونسپل کمیٹی والے اتار دیں گے۔سوشل میڈیا پر جیت کی پشین گوئیاں کرنے والے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر چکے ہونگے۔ووٹ کے لیے گرجنے والے جھاگ کی طرح بیٹھ چُکے ہوں گے۔ جیوے جیوے فلاں جیوے، آوے ہی آوے، زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانے والے کارکن انڈرگرائونڈ ہوجائیں گے یا سوشل میڈیا پر دھاندلی کا راگ الاپ رہے ہونگے۔ الیکشن ہارنے والا امید وار تو ویسے ہی گوشہ نشین ہوجاتا ہے اور جیتنے والا ووٹرز کی دسترس سے نکل جاتا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی باآسانی دوتہائی اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنا لیں گی۔کہا جا رہا ہے مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ مریم نواز کی غیر معمولی صلاحیتوں سے کوئی بھی انکاری نہیں بلکہ ان کے طرز سیاست کا زمانہ معترف ہے۔ نواز شریف نے مریم نواز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کر کے آئندہ الیکشن میں وزیر اعظم کی پیش رفت کا سفر شروع کروا دیا ہے۔ قومی اسمبلی کیلئے اصل مقابلہ تیر ،شیر اور آزاد کے درمیان ہے۔1988 ء کے انتخابات میں پورا ملک سیاسی تفریق کا شکار تھا۔تب قومی اسمبلی کی 40 نشستیں آزاد امیدوار جیت گئے تھے۔ 2008 ء میں 29 ، 2013 ء میں 27 اور 2018 ء میں 12 آزادارکان منتخب ہوئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ آزاد ارکان کی فتح کا رجحان کم ہورہا ہے ۔اس لیے تمام تر کھوکھلے نعروں اور دعووں کے باوجود بھی اس دفعہ 30 سے 40کے لگ بھگ ہی آزاد جیت سکیں گے۔ ’’آزاد‘‘ ہواؤں کے رُخ پر ہوں گے اور جیتنے والوں کی اکثریت اقتدار کی طرف جاتی گاڑی میں سوار ہوجائے گی۔سندھ سے پیپلز پارٹی 35سے 40سیٹیں حاصل کرلے گی جبکہ پنجاب سے بامشکل پانچ سیٹوں پر کامیابی کے امکانات ہیں۔کراچی اور خیبرپختونخواہ سے جماعت اسلامی بھی چند سیٹوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں ہوگی لیکن وہ کسی حکومتی پارٹی میں شامل ہوتی نظر نہیں آرہی۔ابھی تک کی صورتحال سے تو یہی لگ رہا ہے کہ ’’شیر‘‘پاکستان کی سرداری کا تاج پہننے کیلئے تیار ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ 12 کے قریب سیٹیں لینے میں کامیاب ہوجائی گی اور امکان ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگی۔ جے یو آئی ،مسلم لیگ(ق) اور جہانگیر خان ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کا بھی جھکائو ن لیگ کی طرف ہے ۔نواز شریف اپنی خرابی صحت کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کا تاج شہباز شریف کے سر سجائیں گے۔ شہباز شریف نے پی ٹی آئی کی بچھائی بارودی سرنگوں کے باوجود آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کا معاہدہ کرکے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرات سے نکالا۔عمران نیازی کی ناکام سفارتی پالیسیوں سے ناراض سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور چین کے ساتھ ناصرف تعلقات بحال کیے بلکہ ان کواربوں ڈالرز کی بڑی سرمایہ کاری کیلئے راضی کیا۔13جماعتی اتحاد کے ساتھ شہباز شریف کو بہت سے چیلنجز کا سامنارہا۔ شہباز شریف نے نا صرف ان چیلنجز کا سامنا کیابلکہ مشکل ترین حالات میں بھی وطن عزیز کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب رہے۔مسائل سے اس طرح نمٹنے کی صلاحیت بلاشبہ شہباز شریف کا ہی کام تھا۔ مشرف نے بھی جلاوطنی سے قبل ان کو بھائی سے علیحدگی پر اقتدار کا اشارہ دیا جبکہ جنرل باجوہ نے 2018کے الیکشن میں شہباز شریف کو اوپنلی یہی آفر کی تھی لیکن شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کے بغیر اقتدار لینے کی بجائے بھائی کا ساتھ دیکر قید و بندکی اذیت کا باخوشی انتخاب کیا۔ بہادری اور وفاداری شہباز شریف کی پہچان بن گئی۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پروزیر اعظم پاکستان کیلئے نواز شریف کا انتخاب شہباز شریف بنے۔ 169 کا’’میجک نمبر‘‘حاصل کرنے کے باوجودشہباز شریف اپنی مفاہمانہ اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والی پالیسی کے باعث باقی جماعتوں کو بھی حکومت سازی کا حصہ بنائیں گے۔اس لیے یہی لگ رہا ہے کہ شہباز شریف 200سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسری دفعہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے۔ سینئر صحافی و کالم نویس دوست کا کہنا تھا کہ ملک پہلے ہی معاشی سماجی، سیاسی اور انتظامی بحران کا شکار ہے۔ ہم پہلے ہی لڑائیوں میں بہت سارا وقت ضائع کر چکے ہیں اب ایک ایک لمحہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت بڑے بڑے فیصلے کرنے ہیں ۔معاشی طور پر ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکالنا ہے‘ لوگ بہت بیزار ہیں، انھیں مطمئن کرنا ہے‘ سیاسی طور پر استحکام پیدا کرنا ہے‘ سماجی رویوں میں بہتری لے کر آنی ہے‘ بنیادی ضروریات کی اشیاء لوگوں کی دسترس میں لانا ہیں۔ بین الاقوامی سازشوں کو ڈکا لگانا ہے، اداروں میں کوآرڈینیشن کو بہتر بنانا ہے‘ دہشتگردی کے سر اٹھاتے عفریت کو روکنا ہے۔ ملک کو درپیش چیلنجز بھی اس امر کا تقاضہ کرتے ہیں کہ پاکستان کیلئے سب ایک ہو جائیں۔