پنجاب میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشنز ایکٹ 2020 ئ، 11 مارچ 2020 کو پنجاب اسمبلی نے منظور کیا اور 18 مارچ کو گورنر نے اس کی منظوری دی۔ 19 مارچ 2020ء سے یہ ایکٹ لاگو ہو گیا ہے۔اس ایکٹ کو عرف عام میں ایم ٹی آئی ایکٹ کہتے ہیں۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کی صحت کے ملازمین نے بہت مخالفت کی۔ خاص طور پر ڈاکٹر اور نرسوں نے اس کی مخالفت میں بہت جلوس نکالے۔اپوزیشن نے بھی اسمبلی میں اس ایکٹ پر بڑی کڑی تنقید کی مگر حکومت نے تمام مخالفت کے باوجود اس ایکٹ کو لاگو کردیا۔ اس ایکٹ کی نمایاں بات یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر حضرات کو سرکاری ہسپتالوں میں پرائیوٹ پریکٹس کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ عناصر کا خیال ہے کہ یہ ایکٹ ہسپتالوں کی نجکاری کی طرف پہلا قدم ہے ،حکومت آہستہ آہستہ صحت کے شعبہ کو پرائیویٹ کر رہی ہے۔ صحت کارڈ جو پہلے صوبہ پختوں خوا میں لاگو کیا گیا اب پنجاب میں بھی اسکا نفاد کیا گیا ہے۔ صحت کار ڈ کے سلسلہ میں نجی ہسپتالوں کو صحت کارڈ کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا ہے۔ صحت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ نجی ہسپتالوں کو منتقل ہو جائے گا۔ اب پنجاب میں کے پی کے کی طرح پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دی گئی ہے چاہے تو پروفیسر حضرات سرکاری ہسپتال میں پریکٹس کریں چاہے نجی ہسپتالوں میں۔ اس ایکٹ میں سب سے طاقتور ایک کمیٹی ہے جس کو سرچ اینڈ نومینیشن کمیٹی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کو وزیر اعلی قائم کرے گا۔ اس کمیٹی میں چیرپرسن صوبائی وزیر صحت ہو گا اور وائس چیئر پرسن اڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب ہو گا۔ ایک ممبر سیکریٹری ٹو گورنمنٹ ہوگا جو ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہو گا۔ایک ممبر میڈیکل یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہوگا۔تین ممبر نجی شعبے سے لئے جائیں گے جن کی نامزدگی وزیر اعلی کرے گا۔ ایک سماجی کارکن، ایک صحت کے شعبے کا سینیئر ریٹائر پرسن اور ایک سول سوسائٹی کا نمائندہ۔ یہ کمیٹی بورڈ آف گورنر اور صوبائی پالیسی بورڈ کے ممبران کی تعیناتی کی سفارشات کرے گی۔میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کی دیکھ بھال اور نگرانی صوبائی پالیسی بورڈ کرے گا۔ پالیسی بورڈ 5 سے سات ممبران پر مشتمل ہو گا۔ پالیسی بورڈ کے ممبران میں حکومت کے ملازم نہیں ہونگے۔ان میں کم از کم ایک ممبر سابقہ پروفیسر ہوگا شعبہ صحت سے۔پالیسی بورڈ کے ممبران کی مدت تین سال ہوگی۔ پالیسی بورڈ کا ایک چیر پرسن ہوگا۔ پالیسی بورڈ کے ممبران کی تعیناتی سرچ اینڈ نومینیشن کمیٹی کی پیش کردہ لسٹ سے ہو گی۔ پالیسی بورڈ اس امر کو یقینی بنائے گا کہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ حکومت کے لاگو کردہ قواعد ضوابط کی پابندی کریں۔ ان اداروں کا سارا ریکارڈ کمپیوٹر سے منسلک ہو۔ پالیسی بورڈ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ لے گا اور اپنی سفارشات حکومت کو دے گا۔ میڈیکل بورڈ کی کم از کم تین میٹنگ ایک سال میں ہونگی۔ایک سالانہ میٹنگ جس میں تمام میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ آف گورنرز شریک ہونگے۔ ہر ایک میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کا ایک بورڈ آف گورنر ہو گا۔ بورڈ آف گورنرز پانچ سے سات افراد پر مشتمل ہو گا۔ بورڈ آف گورنرز کا کوئی ممبر سرکاری ملازم نہیں ہو گا۔ بورڈ کے ممبران کے مدت تین سال ہو گی۔ ان کی تعیناتی دوبارہ ہو سکے گی۔ کوئی بھی خالی سیٹ ایک ماہ کے اندر پر ہو گی۔بورڈ کا ایک چیئر پرسن ہو گا جو میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کے لئے ڈین، میڈیکل ڈائریکٹر ، ہسپتال ڈائریکٹر، ڈائریکٹر فنانس اور نرسنگ ڈائریکٹر کی تعیناتی کر ے گا۔ بورڈ آف گورنر اس ادارے کو چلانے کا ذمہ دار ہو گا۔ اور اسکا ادارہ پر پورا کنٹرول ہو گا ۔ بورڈ آف گورنر ز کے ممبران اپنا عہدہ کھو دیں گے اگر وہ تین مسلسل میٹنگ بلا عزر اٹینڈ نا کریں۔کوئی ممبر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دے۔ کوئی فر د ممبر نہیں بن سکتا یا رہ سکتا اگر وہ دماغی طور پر ٹھیک نہ ہو۔ دیوالیہ ہو جائے یا اس کے خلاف دیوالیہ پن کا کوئی مقدمہ زیر سماعت ہو۔ بورڈ کے تمام فیصلے ایک رائے سے ہونگے، اختلاف کی صورت میںکثرت رائے کا فارمولہ عمل میں لایا جائے گا۔بورڈ آف گورنر کے پاس بہت سے اختیارات ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت ہر ایک میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کسی میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک ہو گا۔جو اس کے سلیبس، ٹریننگ اور امتحانات کی نگرانی کرے گی۔ہر ایک ہسپتال جو کسی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہو گا ، ایک مینجمنٹ کمیٹی کے ماتحت ہوگا جس میں درج ذیل افراد ہونگے۔ ہسپتال ڈائریکٹر میڈیکل ڈائریکٹر نرسنگ ڈائریکٹر فنانس ڈائریکٹر اور دو افراد جن کی سفارش ڈین کرے گا بورڈ آف گورنر سے۔ مینجمنٹ کمیٹی کسی ملازم کو نوکری سے نکال سکتی ہے قواعد و ضوابط کے مطابق۔ یہ کمیٹی بورڈ آف گورنرز کو سالانہ بجٹ کے لئے سفارشات کر سکتی ہے۔کسی بھی میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ ڈین ہوگا۔ڈین چیف ایگزیکٹیو افیسر کے طور پر کام کرے گا، ڈین کی تعیناتی بورڈ آف گورنرز پانچ سال کے لئے کرے گا۔ ادارہ کے مختلف شعبوں میں چیر پرسن کی تعیناتی ڈین کرے گا۔ چیر پرسن کی معزولی بورڈ کرے گا۔ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ بورڈ آف گورنر کے نیچے ہونگے جو کہ نجی شعبے سے ہونگے اس طرح سرکاری اداروں پر نجی افراد کا قبضہ ہو جائے گا۔ اس ایکٹ میں اختیارات جہاں سے شروع ہوتے ہیں وہ سرچ اینڈ نومینیشن کمیٹی ہے جس کے تین افراد نجی شعبہ سے ہیں جن کی تعیناتی وزیر اعلی نے کرنی ہے یعنی کی سیاسی عمل دخل ان اداروں میں بڑھ جائے گا۔ اس کمیٹی کا چیر پرسن وزیر ہوگا وہ بھی ایک سیاسی بندہ ہوگا، حکومت ایک ایک فرد ایڈیشنل سکریٹری ہو گا۔ پالیسی بورڈ اور بورڈ آف گورنر ز کی نامزدگی کی سفارش سرچ کمیٹی کرے گی۔ بورڈ آف گورنر اور پالیسی بورڈ کے ممبران نجی شعبہ سے ہونگے۔ غریب عوام پر پرچی فیس کی شکل میں بوجھ بڑھ جائے گا۔ اگر اس ایکٹ کا نفاد درست نیت سے نہ ہوا تو یہ بھی 1970ء کی نجی شعبے کو قومیانی والی تباہی ہو گی۔ اب وقت کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے خدا خیر کرے۔ سرکاری ملازمین کی جان نجی شعبے کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔