گزشتہ عشرہ کافی ہنگامہ خیز رہا‘16اکتوبر 2022ء کو جناب وزیر اعلیٰ پنجاب نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز میں تشریف آوری پر ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی امور کی اَپ گریڈیشن کی نوید سنائی‘ جس سے راقم بھی بہرہ مند ہوا۔ازاں بعد مجریہ احکام اس وقت موصول ہوئے ، جب راقم کو 22اکتوبر 2022ء کو اپنے آبائے کرام اور اجداد مطہرات کے سالانہ عرس پر حاضری کے لیے روانہ ہونے کو تھا ،چند لمحوں میں چارج سے سبکدوش ہو کر ،عازم درگاہِ مقدسہ نارنگ شریف ہو گیا۔نومبر سے دو ہفتے کے لیے ’’ایکس پاکستان لیو‘‘ یعنی رخصت بیرون ملک پہلے ہی اپلائی کر رکھی تھی۔چنانچہ آج رات سعود ی ائیر لائنز کی پرواز ایس وی 0737سے امریکہ کے لئے روانگی اور ابتدائی طور پر واشنگٹن ڈی سی اور امریکہ کی خوبصورت ریاست ورجینیا میں قیام ہے ،جہاں 4نومبر کو انٹر نیشنل پیس مشن کے زیر اہتمام ’’میلاد النبی امن کانفرنس‘‘ میں شرکت سمیت دیگر مقامات ،شخصیات اور نجی سیاحت ومصروفیات در پیش ہوں گی۔9نومبر کو ینو یارک سے مدینہ منورہ اور 14نومبر2022کو واپسی اور۔۔۔ پھر وہی دشت ،وہی خارِ مغیلاں ہوں گے امریکہ سے ہمدمِ دیرینہ خالد بھائی نے مطلع کیا کہ یہاں سردیوں کا آغاز ہو چکا ہے‘ پاکستان کے موسم کے مغالطے میں نہ رہنا برفیلی ہوائوں کے ان ملکوں میں بھاری بھرکم اور گرم تر جیکٹس اور ’’اوور کوٹ‘‘ کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔ امریکی ریاستوں میں سردیوں کی شدت اور پھر اس کا دورانیہ ذرا طویل ہوتا ہے۔جس طرح ہمیں سردیوں کا انتظار رہتا ہے کہ اس میں چند دنوں کے لئے شدت آئے اور گرم ملبوسات زیر تن ہوں‘ اسی طرح ان گوروں کو سارا سال گرمیوں کا انتظارہوتا ہے‘ تاکہ وہ کپڑوں کے بغیر آزادی سے گھوم سکیں۔کئی برس قبل جب پہلی مرتبہ امریکہ جانے کا موقع میسر آیا تو میرے ایک سینئر نے کہا کہ تم دیکھو گے ،امریکیوں نے اپنی ریاستوں کو کس طرح سنوارا اور آراستہ کیا ہے۔ اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ مسلمانوں نے اٹھایا۔دنیا کے ہر خطے کے مسلمان اپنی اپنی طرزِ تعمیر سے آراستہ مساجد و مکاتب میں سرگرم ہیں۔ ورجینیا سرسبز و شاداب اور جنت نظیر ریاست۔ہر شاہراہ پر چرچ۔لیکن ویران‘ ان کے پادری ان چرچوں کے باہر‘ دروازوں پر کھڑے انتظار کے کرب میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں کہ شاید کوئی ان کے عبادت خانوں کو رونق بخشنے والا آ جائے جبکہ دوسری طرف مساجد آباد بلکہ پْر رونق‘ وطن سے دور رہنا جرم نہیں‘ اپنی اصل اور بنیاد سے کٹ جانا اصل جرم ہے۔یہاں سے نقل مکانی کرنے والے اپنی ذات کی حد تک تو پاکستان سے منسلک اور متعلق رہتے ہیں۔ لیکن ان کی اگلی نسل جو امریکہ میں پیدا ہوتی ہے‘ ان کو امریکی ہونے کا احساس اس قدر شدید ہوتا ہے‘ کہ وہ اسی کو زندگی اور زندگی کا حاصل سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اکثر چرچ‘ مساجد میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں اکو قوان ورجینیا میں ایک قدیم چرچ ،جو کہ مسجد الحسین میں تبدیل ہو گیا ہے۔جس کے منتظم و مہتمم معروف دانشور اور محقق ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری جو انٹرنیشنل پیس مشن کے سربراہ ہیں۔ دریا کے کنارے یہ ازحد خوبصورت اور دلکش منظر سے آراستہ مقام اللہ تعالیٰ کی واحدانیت ‘ نبی کی رسالت اور اسلام کی صداقت کا پرچم سربلند کئے ایک عظیم مرکز کے طور پر معروف اور معتبر ہے۔ مجھے چار سال قبل نیو یارک میں ایسے دیگر مختلف مقامات اور مراکز بھی دیکھنے کا موقع ملا، جہاں دین متین کی آبیاری کا اہتمام انتہائی تزک و احتشام سے جاری ہے۔ نیو یارک میں میلاد النبی کا جلوس ازحد شان و شکوہ سے نکالا جاتا ہے۔وائس آف امریکہ سمیت دیگر چینلز اس کی کوریج کا اہتمام کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کیلیفورنیا‘ نیو جرسی‘ انڈیانہ‘ مشی گن‘ نیکسن‘ اہایو‘ اور میری لینڈ سمیت دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی اور اسلام ایک نمائندہ مذہب کے طور پر معتبر ہو رہا ہے۔ تاریخی حقائق کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی آمد‘ امریکہ کی دریافت سے بھی پہلے شروع ہو گئی تھی اور 1717ء میں افریقہ سے عربی بولنے والے مسلمان‘ غلاموں کی حیثیت سے درآمد ہونے لگے تھے‘ لیکن مسلمان تارکین وطن کی پہلی کھیپ شام کے سقوط پر 1875ء میں اس سرزمین میں آئی۔پہلی جنگ عظیم شروع ہونے پر یہ سلسلہ رک گیا۔1930ء کے عشرے میں یہ سلسلہ پھر رواں ہوا۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اس میں تعطل آ گیا۔امریکہ میں مسلمانوں کی آمد کا تیسرا دور 1947ء سے لے کر 1960ء کے عشرے کے وسط تک برقرار رہا۔اس عرصے میں تعلیم یافتہ طبقہ یہاں وارد ہوا۔ بہت سے انجینئر‘ ڈاکٹر سائنسدان اور دیگر علوم و فنون کے ماہر اپنے ملکوں کے سیاسی و معاشی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر امریکی اقتصادی ترقی سے فائدہ اٹھانے‘ امریکہ پہنچ گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی معیشت تیزی سے فروغ پانے لگی‘ اس میں غیر ملکی ماہرین کے جذب ہونے کی ازحد گنجائش تھی‘ تارکین وطن کی چوتھی لہر 1970ء کے عشرے میں شروع ہوئی۔ اس دور میں آنے والے بیشتر مسلمان تعلیم‘ سیاحت یا کاروبار کے ویزے پر امریکہ میں داخل ہوئے اور ویزہ کی میعاد ختم ہونے پر امریکہ چھوڑنا ان کے لئے مشکل تھا۔یہاں انہوں نے سیاسی پناہ کا سہارا لیا۔بہت سوں نے امریکی عورتوں سے شادیاں رچا لیں۔ امریکہ میں مقیم مسلمانوں پر مختلف ناخوشگوار ادوار بھی گزرے‘ مگر 9/11کے بعد یہاں کے حالات یکسر مختلف ہو گئے۔ اسلام کو انتہا پسند مذہب اور مسلمانوں کو ایک تشدد پرست قوم کے طور پر دیکھا اور پر زور طریقے سے متعارف کروایا جانے لگا۔لیکن اس کے ساتھ یہاں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ جس کے مطابق یہاں قرآن پاک کے انگریزی ترجمے اور نسخوں کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔لوگ قرآن اور مسلمانوں کے طرزِ زیست اور اسلوبِ حیا سے آگاہی کے خواہاں ہوئے۔ اس کارِ خیر میں مسلم ممالک اور اْن کی مختلف تنظیموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔گیارہ ستمبر کے واقعہ نے امریکی مسلمانوں کو متاثر کیا جن میں امریکہ کی مسلم آبادی کا سب سے بڑا جزو 42فیصد افریقی امریکیوں کا ہے۔جن کے آبا اجداد افریقہ سے غلام بنا کر لائے گئے تھے‘ دوسرے نمبر برصغیر پاک و ہند سے تعلق کھنے والے تیسرا نمبر عربوں کا ہے۔ اس کے بعد ایرانی ‘ ترک اور سفید فام امریکی وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔امریکہ کی مسلم آبادی میں بھی فرقہ وارانہ تناسب کم و بیش ویسا ہی رہا جیسا کہ ہمارے خطے کا۔لیکن برطانیہ کی طرح۔امریکہ میں فرقہ واریت کا بازار ویسا گرم نہیں ہوا۔مشائخ و سجادگان اور علماء و سکالر اپنے اپنے مسلک و مکتب کی ترویج و تشہیر میں سرگرم ہیں۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی محبت آمیز تعلیمات کا فیضان عام ہو تاکہ تعصبات دور ہو سکیں اور لوگ قرآن اور صاحبِ قرآن کے بارے میں حقیقی آگاہی سے آشنا ہو پائیں۔ اس سلسلے میں دین کے عمائدین اور پیشوائوں کو جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت محض واعظین نہیں بلکہ مبلغین کی ایسی جماعتیں تیار کرنی چاہیے جو بین الاقوامی سطح پر دینِ متین کی تبلیغ کا صحیح فریضہ سرانجام دے سکیں۔