انگریزی زبان کا محاورہ ہے۔سالٹ آف ارتھ، جس کے معنی ہیں ایک اچھا اور ایماندار فرد یا افراد کا مجموعہ۔ایک لفظ اردو کا ہے وضع داری جس کا چلن آجکل پاکستانی سیاست میں بہت کم ہے۔ عام سیاسی ورکر کی بات ہم کیا کریں بہت سے سیاسی جماعتوں کے سربراہ وضع داری سے عاری ہیں۔ چودھری برادران پاکستانی سیاست میں وضع داری کی بہت اچھی مثال ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر آنے والے ہر فرد کو عزت اور احترام دیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے در سے کوئی اور کچھ ناں لا سکے عزت اور احترام ضرور لے کے جاتا ہے۔چودھری ظہور الہی نے پاکستانی سیاست میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی۔ ڈیرے داری کی روایت۔ چودھری ظہور الہی کے جانشین چودھری شجاعت اور پرویز الہی نے اس روایت کو مزید پروان چڑھایا۔1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کے بعد جنرل ضیا الحق نے پاکستان مسلم لیگ کے مردہ جسم میں نئی روح ڈالی اور محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے تو اس وقت پنجاب میں وزارت اعلی کے امیدواروں میں چودھری پرویز الہی بھی شامل تھے۔ گورنر غلام جیلانی کی نگاہ انتخاب میاں نواز شریف پر ٹھہری اور چودھری پرویز الہی کو وزارت پر اکتفا کرنا پڑا۔ 1988ء کے الیکشن میںپرویز الہی ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے اور وہ صوبائی حکومت میں وزیر بلدیات تھے۔1990 کی صوبائی حکومت میں وزیر تھے۔ پرویز الہی 1985ء تا 1993ء تک 8 سال وزیر بلدیات رہے۔ 1997ء کے الیکشن کے بعد وہ ایک بار پھر وزارت اعلی کے امیدوار تھے لیکن قرہ ایک بار میاں شہباز شریف کے نام نکلا اور پرویز الہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر بن گئے۔ جب جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو چودھری برادران نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا۔ 2002 ء کے الیکشن میں پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی بنے۔ اور چودھری شجاعت کچھ عر صہ کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ 2002ء سے 2008 ء تک چودھری برادران کا پورا عروج کا دور تھا۔مونس الہی پنجاب میں سب کچھ تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ اگلے وزیر اعلی پنجاب وہ ہونگے۔ 2008ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ق کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔پرویز الہی قومی اسمبلی کے ممبر بنے اور انکے لئے ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ بنایا گیا۔ 2008ء تا 2013ء تک چودھری برادران پاکستان پیپلز پارٹی کے حلیف تھے۔ زرداری خود چل کر ان کے گھر گئے تھے۔ یہی زرداری تھے جنہوں نے چودھری برادران پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگایا تھا۔ 2018ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے وفاق اور پنجاب میں اقتدار حاصل کیا۔ شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب اور نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنے۔ 2018 کے الیکشن چودھری برادران کے لئے سب سے مایوس کن الیکشن تھے۔ اور ایک بار یوں لگ رہا تھا کہ ملکی سیاست میں چودھری برادران کا رول ختم ہو گیا۔ گجرات بھی چودھریوں کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔میاں برادران چودھری برادران کا ذکر حقارت سے کرتے تھے۔ 2018ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ق کو سیٹس تو بہت کم ملیں مگر ان کی اہمیت بہت زیادہ تھی ان کی حمایت کے بغیر پنجاب اور وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننا ناممکن تھی۔ پرویز الہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر بن گئے۔ اب وہ وفاق اور پنجاب میں حکومت کے اتحادی ہیں۔ اس وقت اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے چکر میں ہے۔ پاکستان کی ساری سیاست چودھری برادران کی مٹھی میں ہے۔ چند دن پہلے سابق صدر آصف علی زردار ی نے چودھری برادران کے آستانے پر حاضری دی اور ان سے مدد کی درخوست کی۔ اور اس کے بعد مولانا فضل الر حمان نے چودھری برادران سے ملاقات کی اور ان کو اپوزیشن کا ساتھ دینے کا کہا۔ اسی دوران حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے وفد نے چودھری برادران سے ملاقات کی اور ان کو حکومت کا ساتھ دینے کی درخواست کی۔ اور اب 13 فروری 2022 ء کو جناب شہباز شریف نے چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہی سے ملاقات کی۔ 2009 ء کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی جب شجاعت حسین کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔1999ء کے بعد پہلی بار 23 سال بعد میاں شہباز شریف اور چودھری برادرن سیاسی گفتگو کے لئے اکٹھے بیٹھے ہیں۔ جب شہباز شریف چودھری برادران سے ملنے گئے تو بہت سی باتیں میرے ذہن میں تھیں۔ کہتے ہیں سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ اس بات کا اطلاق پاکستان کی سیاست پر بہت ہوتا ہے ایک وقت تھا جب چودھری برادران ذولفقار علی بھٹو کو چودھری ظہور الہی کا قاتل گردانتے تھے۔ انہوں نے بھٹو مخالفت میں ضیا کا ساتھ دیا۔ آصف علی زرداری چودھری برادران پر نے نظیر کے قتل کا الزام لگاتے تھے پھر ایک وقت آیا کہ زرداری صاحب چودھریوں کے ڈیرے پر گئے اور چودھری برادران نے آصف علی کی زیر صدارت وزارت سنبھالی۔ عمران خان ایک وقت میں چودھریوں کو چور ، ڈاکو اور نا جانے کیا کیا کہتے تھے اور پھر قدرت عمران خان کو چودھری برادران کے ڈیرے پر لے آئی۔ اور اب شہباز شریف جو چودھری صاحبان کو یتیم سیاستدان اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے تھے اب خود چل کر چودھریوں کیدر پر گئے ہیں۔اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ چودھری برادران کس کہ ساتھ دیتے ہیں۔ چودھری صاحبان کو دو باتیں کی داد تو دینی پڑے گی ایک تو یہ کہ وہ کسی کے پاس نہیں گئے ہر کوئی انکے پاس آیا ہے اب آصف علی زرداری، شہباز شریف، عمران خاں ، مولانا فضل الرحمان سب چودھریوں کے آستانے کے مرید ہیں۔ دوسری بات چودھری صاحب پاکستانی سیاست کے رموزکو خوب جانتے ہیں 1985ء سے اب تک وہ یا حکومت میں رہے ہیں یا اپوزیش کے لیڈر۔چودھری صاحب پنجاب کی فہم وفراست اور فوک وزڈم کی زندہ مثال ہیں اور انکی نظر سے دو مثالیں ضرور گزری ہوں گی۔ایک جس کا مفہوم ہے کہ’ تو گود والے کی فکر کر پیٹ والے کو جانے دے‘اور دوسری جس کا مفہوم ہے’ اڑتے پنچھی کے پیچھے بھا گنا نہیں چاہئے جو ہاتھ میں ہے اسکی فکر کرنی چاہئے‘۔