2011 میں بھی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران، وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو صوبہ پنجاب کے موہالی میں اپنے ساتھ میچ دیکھنے کی دعوت دی۔ اس سے تعلقات میں نسبتاً بہتری آئی، جو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد نچلی سطح پر آگئے تھے۔ سفارتی آلے کے طور کرکٹ کے استعمال کی تاریخ تو ویسے 1952 سے ہی شروع ہوئی۔ تقسیم کے فسادات اور کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بعد دونوں ممالک کے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ کھیل سے عوام کے درمیان رابطہ بحال ہو جائے گا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم 1952 میں ایک ٹیسٹ میچ کی سیریز کھیلنے کے لیے بھارت آئی تھی، جس میں کچھ ایسے کھلاڑی شامل تھے جو غیر منقسم بھارت کے لیے کھیل چکے تھے۔اس کے جواب میں 1955 میں جب بھارتی ٹیم پاکستان پہنچی تو تقریباً 10,000 شائقین نے ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے بھارت سے لاہور کا سفر کیا۔ جو تماشائی امرتسر میں رہتے تھے انہیں ہر روز میچ کے اختتام کے بعد واہگہ بارڈر کے ذریعے واپس گھر جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کرکٹ، دیگر کھیلوں کے برعکس، فطری طور پر سماجی رابطوں کو بحال کرنے کیلئے ایک فطری ذریعہ ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ اسپورٹ: فرام اینشینٹ ٹائمز ٹو پریزنٹ میں، مصنفین ڈیوڈ لیونسن اور کیرن کرسٹینسن دلیل دیتے ہیں کہ ٹیسٹ میچ کا دورانیہ چونکہ پانچ دنوں کا ہوتا ہے، اس لئے تماشائیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ میل جول بڑھانے کیلئے وقت فراہم کرتا ہے۔ بائونڈری لائن پر آؤٹ فیلڈ کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان بھی اکثر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اس کھیل کا ڈھانچہ ہی ایسا ہے کہ اس میں اعصاب شکن جوش و خروش کے ادوار کے ساتھ ساتھ بوریت کے وقفے بھی آتے ہیں۔جس میں تماشائی ایک دوسرے سے روبرو ہوتے ہیں اور بات چیت کرتے ہیں۔ برسٹل یونیورسٹی میں اکیڈمک ایملی کرک کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دو مواقع پر پاکستانی رہنماؤں نے کرکٹ میچوں کو اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے انعقاد کیلئے استعمال کیا ، جب کہ اس کے برعکس بھارت نے کرکٹ کو سفارتی پابندی کے اور مخالف کو سزا دینے کے بطور استعمال کیا ہے - اسکلالر ورون ساہنی، کا کہنا ہے کہ بھارت نے اکثر دو طرفہ میچوں کی اجازت نہ دے کر کرکٹ کو ''سیکورٹائز'' کیا ہے۔ جس کا مظاہرہ حال ہی میں ایشاء کپ اور ورلڈ کپ نے دوران بھی ہوا۔ خیر سگالی یا اعتماد سازی کی بحالی کا ایک بہترین موقع گنوا دیا گیا۔ خیر شارجہ کے اسٹیڈیم میں چنار اسپورٹس فیسٹیول کے چھٹے ایڈیشن کے فائنل میچ میں افضال بسیرا نے راجگان کرکٹ کلب کا شکست دی۔ اس کے اختتام کی تقریب میں صحافی شہزاد راٹھور کے تحریر کردہ اور خرم بٹ کے گائے ترانے، ’’چناروں کے دیس سے اٹھی آواز ہے، ‘‘نے علیحدگی کے کرب ا ور اتحاد کی خواہش کا اظہارکیا۔دیگر مہمانوں میں راجہ ر فیصل راٹھور اور رکن اسمبلی حسن ابراہیم بھی شامل تھے۔راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ رات کے وقت ریگستان کی سرد فضا میں مظفر آباد اور سرینگر کی سرد ہواؤں کی یاد تازہ ہوگئی۔ماضی کو کریدتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اور ان کی قیادت میں ان کی کرکٹ ٹیم مظفرآباد میں چمپئین بنی تھی۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ منقسم جموں و کشمیر کی ٹیموں کو اگر کرکٹ کھلنے کی اجازت دی جائے، تو تناؤ کی صورتحال ختم ہوسکتی ہے۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ سری نگر مظفرآباد کی کرکٹ ٹیموں کا میچ ہو۔ بارمولا کے کھلاڑی راولا کوٹ سے مقابلہ کریں، شوپیاں کا ٹیلنٹ پونچھ سے میدان کرکٹ میں آمنے سامنے آئے۔ اس کرکٹ لیگ کی مناسبت سے متحدہ عرب امارات کے کرکٹ میدانوں کے اطراف درخت لگائے گئے۔، چئیرمین چنار اسپورٹس فیسٹول راجہ اسد خالد نے کہا کہ حال ہی میں متحدہ عرب کی ریاست دبئی میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس ہوئی جس کا مقصد دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا تھا اس لئے متحدہ عرب امارات کے ویژن کے مطابق انہوں نے بھی'' چنار بچاؤ، درخت لگاؤ'' مہم کی شروع کی ہے۔ واضح رہے کہ خطہ کشمیر میں گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے جنوب ایشیا کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔یہ گلیشیر پورے دریائے سندھ کے تا س کو پانی فراہم کرکے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ زرعی پیداوار اور فوڈ اسکیورٹی کو قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادار کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کے سوال پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اشتراک کی اشد ضروت ہے، کیونکہ پچھلے دو عشروں سے کشمیر کے سب سے بڑے ’کلاہوئی گلیشیر‘ کی ناک ٹاپ22میٹر سے زائد پگھل چکی ہے۔ یہ اعداد و شما2007ء کے ہیں۔ اس کے بعد تو مزید تباہی آچکی ہے۔ اس کے اطراف کے چھوٹے گلیشیر تو کب کے ختم ہوچکے ہیں۔ ہمالیہ خطے کے 51ہزار گلیشیر دنیا کے چاربڑے دریاوٰں سندھ، گنگا، میکانگ اور برہم پترا کے لیے منبع کا کام کرتے ہیں۔ تقریباً تین ارب افراد کی زندگی ان کے پانیوں کی مرہون منت ہے۔ایک بھارتی سائنس دان ایم این کول کے بقول ان گلیشیروں میں 6,500بھارت میں اور پھر ان میں3163کشمیر اور لداخ خطے میں ہیں۔ جب وزیر اعظم مودی مندر کا افتتاح کر رہے تھے، تو اس کے پجاری برہماویہاری سوامی کا کہنا تھاکہ مندر کیلئے زمین کا تحفہ دینے کی وجہ سے عرب امارات کے حکمرانوں نے سخاوت اور دریا دلی میں نام پیدا کر دیا ہے، جس کا اثر عالم گیر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا ہزاروں سال بعد بھی متحدہ عرب امارات کے موجودہ حکمرانوں کو اس ایک کارنامہ کی وجہ سے احترام سے یاد کیا جائیگا۔ کئی سو سال قبل مغل فرمانروا اورنگ زیب نے بھی کئی مندروں کو جاگیریں عطا کی تھیں۔ مگر ان کا نام لینا بھی آج کل بھارت میں جر م کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کے نام کی سڑک کا نام بھی نئی دہلی میں تبدیل کردیاگیا ہے۔پھر بھی اگر اس خیر سگالی کو متحدہ امارات کے حکمران بھارت کے موجودہ حکمرانوں کو یہ باور کروانے کیلئے استعمال کریںکہ ایک کمزور اور بدقسمت کشمیری قوم کو تھوڑی بہت راحت دیکر اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو شروع کرکے منطقی انجام تک پہنچا دیں، تو یہ قدم اور ان کا نام تاریخ میں یقینا سنہری حروف میں لکھا جائیگا ۔ خیر کرکٹ کے اس فیسٹول نے واقعی یاد دہائی کرائی کہ گو کہ جدید کرکٹ کو کارپوریٹ اور انتہا پسند قوم پرستی نے آلودہ کردیا ہے، مگر یہ کھیل ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں جگہ رکھتا ہے اور اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے، تو ابھی بھی تقسیم کرنے کے بجائے جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔