ٹی وی کھولے کتنے ہی روز بیت چکے ۔اخبارات بھی سٹڈی کے کونے میں دھری چھوٹی سی میز پر جمع ہو تے رہتے ہیں۔اردو اخبارات اب نیم جان ہیں۔ انگریزی اخبار ہی ہے جس میں کچھ سکت باقی ہے۔اس پر ہاتھ ڈالنا آسان بھی تو نہیں۔آ ئیے اس اخبار کا ایک پرچہ میز پر سے اٹھاتے ہیں۔اخبارمیں چھپنے والے ایک تجزیئے کے مطابق پاکستان میں رواں برس مئی تک گیارہ مہینوں میں آنے والی بیرونی سرمایہ کاری میںپچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 21% کمی ہوئی ہے۔سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے رقوم بھیجے جانے میں کمی الگ ہے۔برآمدات کے سوتے تین برسوں کے ابھار کے بعد خشک ہو رہے ہیں۔نتیجے میں ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم 126ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ محض قرضے کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کی مد میںاگلے دو برسوں کے دوران ہمیں 47.6 ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔ ہماری جیب میں جبکہ کل ملا کر اب ساڑھے تین بلین ڈالرز پڑے ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر کے لئے منت سماجت کر رہا ہے۔ اس سال ملک چھوڑ کریورپ اور امریکہ نقل مکانی کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد سال 1971ء کے بعد سب سے زیادہ رہی ہے۔یاد رہے کہ سال 1971 ء وہ سال ہے جس میںجناح کا پاکستان ٹوٹا تھا۔وہ پروفیشنل کہ جن کی ترقی یافتہ ملکوں میں کھپت ہے، حالیہ مہینوں میں ہزاروں کی تعداد میں سر سبز چراگاہوں کو سدھار چکے ۔ وہ کہ جن کو قانونی ہجرت دستیاب نہیں، انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھتے ہیں۔’یونانی ٹریجڈی‘ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔سامنے پڑے انگریزی اخبار میں گجرات کے چودہ سالہ ابوذر کی کہانی چھپی ہے۔ ابوذر اپنے خاندان کو غربت سے نجات دلانے کے لئے یورپ جانا چاہتا تھا۔ غریب باپ کہ سکول وین چلا کر اپنے افراد خانہ کو بمشکل پال رہا تھا،انسانی ا سمگلروں نے سنہرے خواب دکھائے تو دس لاکھ روپے میں اپنا گھر بیچ کر لختِ جگر کو رقم سمیت ان کے حوالے کر دیا۔کہنے کو کشتی کا ڈوبنا ایک حادثہ ہے۔ کشتی کیا ڈوبی ، سینکڑوں خاندان سمندر میں غرق ہو گئے۔ سامنے رکھے اخبار میں صفحہ اول پرچھپنے والی خبر کے مطابق انسانی اسمگلروں کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ صرف انسانی اسمگلروں کے خلاف ہی نہیں غربت سے گھبرا کر ملک چھوڑ نے والے پاکستانیوں کے خلاف بھی تھوڑی بہت قانون سازی کی جانی چاہیئے ۔کروڑوں نوجوانوں کے لئے اگرریاست روٹی، عزت اور عافیت کے اسباب پیدا نہ کر سکے تو جھوٹے سچے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کے ماں باپ کو کچھ سبق سکھانے میں کیا برائی ہے؟اس سوال سے کہ آخر اس قدر بڑی تعدادمیں پاکستانی ملک چھوڑ کیوں رہے ہیں، پھر کبھی نمٹ لیں گے۔ اخبار کے پچھلے صفحے پرشائع شدہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مودی کیلئے امریکہ میں لال قالین بچھایاگیاہے۔ ہائوس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا موقع دیا جارہا ہے۔ امریکی کمپنیوں نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے ہیں۔ اسی اخبارکی صفحہ اول پر چھپی رپورٹ دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی مگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔اپنے حریف کے مقابلے میں بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی خاطر ہم نے ایک طاقتور فورم کے قیام کا فیصلہ کر لیاہے۔ فورم کا کلیدی کام بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ کرنا ہے۔ فورم کا پہلا ہدف اس سال 21%کی شرح سے کم ہونے والی 1.3بلین سرمایہ کاری کو 5بلین ڈالرز تک لے کرجاناہے۔ مگر کیسے؟ اس سوال کا جواب اخبار نے اپنے اداریئے میں اس فورم کے اہداف کو Pipe Dreamقرار دیتے ہوئے دیاہے۔ اخبار میں معیشت سے ہٹ کر جو ایک دوسری اہم خبر چھپی ہے وہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی نامزدگی کے نوٹیفیکیشن سے متعلق ہے۔ موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ سے تین ماہ پہلے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کی روشنائی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائیل کے مقدمے پر شنوائی کے لئے قائم ہونے والے بنچ نے کاروائی کاآغاز کر دیا۔کاروائی کے ڈرامائی آغازکو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کا عرصہ تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائے گا،تاہم گرمیوں کی تعطیلات کے بعد شروع ہونے والا سال جمہوریت، سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق جیسے معاملات کے حوالے سے بہت دلچسپ ہوگا۔آپ بھی اِدھرہی ہیں، ہمارا ارادہ بھی یہیں مرنے کھپنے کا ہے۔ اسی روز کے پرچے کے دو مختلف صفحات پربظاہر دو مختلف مگر ایک ہی نوعیت کی خبریں بھی پڑھنے کو ملیں۔پہلی خبر کے مطابق ایک مذہبی تنظیم نے اپنے مخصوص مطالبات کو لے کرجی ٹی روڈ پر جس دھرنے سے ملک کی شاہ رگ کو ایک بار پھر بند کر دیا تھا، وہ دھرناحکومت سے مذاکرات اور’ حسبِ معمول‘ معاہدے کے بعدچند روز قبل اُٹھا لیا گیا تھا ۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز حکومتی نمائندوں اور مذہبی تنظیم کے رہنمائوں پر مشتمل ’فریقین‘ نے مل کر معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا ہے۔ دوسری خبر اسلام آباد میں ایک معروف مسجد کے سابقہ پیش امام کی گرفتاری کی ناکام کوشش اور اس کے ردِ عمل میں ان کی اہلیہ کی جانب سے کالعدم تحریک کے نام ویڈیو پیغام سے متعلق ہے۔ اسی خبر سے منسلک ایک تصویر میں برقع پوش لٹھ بردار خواتین اسلام آباد پولیس کی ایک خاتون پولیس افسر کو گھیرے میں لئے ہوئے ڈنڈوں سے اُس کی پٹائی کرتے ہوئے دکھائی گئی ہیں۔یاد رہے کہ گزرے ہفتوں، مہینوں اسلام آباد پولیس نے’غیر مذہبی شر پسندوں‘ کے خلاف بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اخبار کے ادارتی صفحے پرشائع ہونے والے ایک مضمون میںقیام پاکستان کے وقت کی ہماری معاشی کسمپرسی او رہماری موجودہ صورتِ حال کے تقابلی جائزے کے بعد لکھا گیاہے کہ ’دائرے میں سفر‘ کے بعدہم ایک بار پھرمعاشی ابتری کے اس مقام پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے گاندھی جی کی بھوک ہڑتال نے ہمیں ایک بار نکالا تھا ۔ پچھہتر بے ثمر برسوں کے لئے کوئی توہوں گے کہ جن سے ایک دن باز پُرس ہوگی۔ آخرایک عدالت آسمانوں پر بھی توہے کہ جس کے اندر کوئی تقسیم نہیں۔ اخباررکھتے ہیںاور کوئی کتاب کھولتے ہیں۔مولا نا ابو الکلام آزاد نے ’ انسانیت موت کے دروازے پر‘ میں بڑی ہستیوں اورکچھ حکمرانوں کے آخری دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے صدیقِ اکبرؓ کے احوال میںلکھا ہے ،’ لوگوں کوتسکین کا پیغام دیتے ،مگر خود بے قرار رہتے‘۔کبھی فرماتے، ’کاش میں درخت ہوتا، کاٹ لیا جاتا‘۔کبھی ٹھنڈی سانس بھرتے،’ایک کاش، میں سبزہ ہوتا اور چوپائے مجھے چَر لیتے۔‘ دو سالہ دورِ خلافت کے بعد خلیفہ اوّل کے آخری دنوں میں درد و گداز کا یہ عالم تھا کہ جب ایک درخت کے سائے میںپُھدکتی چڑیا کو دیکھاتو فرمایا،’اے چڑیا، تو کس قدر خوش نصیب ہے۔موت کے بعد تیری باز پُرس نہ ہو گی۔‘