وزیر اعظم صاحب سعودی عرب کے دورے پر ہیں اسی دوران یہ ضروری سمجھا گیا کہ جناب اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیر اعظم بنادیا جائے۔وہ وزیر خارجہ کے منصب پر پہلے ہی فائز ہیں ۔یہ اور بات کہ وہ اس پر خوش نہیں تھے ۔ اسحاق ڈار کی اہلیت سے قطع نظر ( وہ ایک چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ ہیں ) یہ بات حیرت کا باعث بنی ہے کہ شہباز حکومت پر اچانک ایسی کیا افتاد آپڑی کہ ان کے دورہ ء سعودی عرب کے دوران ہی انہیں ڈپٹی وزیر اعظم بنادیا گیا۔ اول تو یہ کوئی آئینی عہدہ ہے نہیں محض وزیر اعظم کی صوابدید پر کسی وزیر کے مراتب کو فزوں تر کرنے اور اسے خوش رکھنے کے لئے یہ عہدہ تراشا گیا ہے۔۔ ( اسحاق ڈارسے قبل ذوالفقار علی بھٹو 7 دسمبر 1971 سے بیس دسمبر 1971 تک ڈپٹی وزیر اعظم رہے تھے، اس کے بعد بیگم نصرت بھٹو 31 مارچ 1989 سے 6 اگست 1990 تک اس عہدے پر فائز رہیں اور پھر اس کے بعد چوہدری پرویز الٰہی 25 جون 2012سے 16 مارچ 2013 تک ڈپٹی وزیر اعظم بنائے گئے۔) ثانیا یہ کہ ایک ایسی حکومت جس کی سیاسی اور اخلاقی بنیاد پہلے ہی انتہائی کمزور ہو اسے تو ضرورت اور فکر اس بات کی ہونی چاہیئے کہ کسی طرح وہ ریاست اور عوام کو درپیش اہم اور بنیادی مسائل پر توجہ دے کر انہیں حل کرے اور سیاسی سطح پر اپنا اعتبار قائم کرے اور اپنی ساکھ کو بہتر کرے نہ کہ مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے سمدھی ( اور ہمارے خیال میں اسحاق ڈار کا یہ تعلق ہی تمام قابل لحاظ اہلیتوں پر فائز ہے )کو منانے کے فکر حکومت پر حاوی رہے۔اسحاق ڈار کی یہ شدید خواہش رہی ہے کہ قومی خزانے کی چابی ان کے پاس رہے۔نواز شریف حکومت میں وہ اس منصب پر پہلے بھی فائز رہے ہیں۔عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کہ بعد جب پی۔ ڈی ۔ ایم کی حکومت قائم ہوئی اور شہباز شریف نے وزارت عظمی سنبھالی تو بوجوہ خود ساختہ جلاوطنی کہ وہ حکومت کا حصہ بننے سے معذور رہے مگر اس دوران جب کہ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ رہے جناب اسحاق ڈار نے انہیں ناکام کرنے کی مسلسل کوشش کی اورانہیں اس وقت تک چین نہیں آیا جب تک مفتاح اسماعیل کو ہٹاکرو ہ خود اس منصب پر براجمان نہیں ہو گئے۔ حالانکہ مفتاح اسماعیل بھی مسلم لیگ نواز کا ہی حصہ تھے ۔شہباز حکومت میں اسحاق ڈار کا وزیر خزانہ ہونے کا دورانیہ ناقص کارکردگی کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ معاملات میں بھی تنازعات کا سبب بنا ۔یہی وجہ رہی کہ موجودہ حکومت میں ، جسے اسمبلی میں سادہ اکثریت کے حصول کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی ، با امر مجبوری اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ سے الگ رکھا گیا اور انہیں وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت دے کر راضی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مگر وہ اس پر مطمئن نہ ہوسکے ۔ ان کی تالیف قلب کے لئے انہیںنجکاری کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ۔انہیں مشترکہ مفادات کونسل کا رکن بنایا گیا ۔مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ ان سب کے باوجود کچھ اور کے متمنی رہے اور وزیر خزانہ نہ بنائے جانے کا ان کا دکھ کسی طرح کم نہیں ہو سکا۔لہذا یہ ضروری سمجھا گیا کہ انہیں ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا جائے تاکہ وہ اس حیثیت میں وزار ت خزانہ سمیت تمام وزارتوں کے معاملات پر اثر انداز ہو سکیں ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا جمہوری تشخص کبھی بھی قابل اطمنان نہیں رہا ۔ موجودہ حکومت جس انتخابی عمل کے ذریعہ وجود میں لائی گئی ہے اس پر پہلے ہی بہت سارے اعتراضات اور سوالیہ نشانات موجود ہیں ۔ اسپر مستزاد ایسا طرز حکومت جس میں ایک خاندان کو نوازے جانے کا پہلو نمایاں ہو اس سیاسی جماعت کے سیاسی اور جمہوری پہلو کو مزید کمزور کردینے کا باعث ہے۔مگر یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں بالعموم جمہوری طرز عمل کا فقدان رہا ہے مگر اس تناظر میں مسلم لیگ کا تشخص اور بھی زیادہ کمزور رہا ہے ۔ایک قومی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس کی مقبولیت پہلے ہی سکڑ کر محض پنجاب کے چند مخصوص شہروں تک محدود ہو گئی ہے ۔جماعت کی قیادت ہو یا حکومت کے مناصب ، خاندان کی گرفت کو اولیت اور ا ہمیت حاصل ہے۔اس ساری صورتحال میں اسحاق ڈار کا ڈپٹی وزیر اعظم بنایا جانا کسی بھی لحاظ سے اچھا فیصلہ ہر گز نہیں ۔ اس سے نہ صرف شہباز حکومت کی ساکھ کمزور ہوئی ہے بلکہ اسحاق ڈار پر مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کی پشت پناہی سے قیادت میں اختلافات کی دراڑ بھی واضح ہو کر سامنے آئی ہے ۔ پھر اس فیصلے سے پاکستان پپلز پارٹی ، جس کی محدود اور مشروط حمایت سے موجودہ حکومت قائم ہوئی ہے ، اور مسلم لیگ کے مابین اعتماد اور اتحاد کی فضا بھی متاثر ہوگی۔ شہباز حکومت اپنے ابتدائی دنوں سے ہی مسلسل متغیر ہے ۔ اسے اپنے ہونے کا اب تک یقین نہیں آسکا ہے ۔ وزارتوں میں تبدیلیاں ،اہم فیصلوں میں عجلت اور پھر مراجعت اور وزارتوں کی تقسیم میں موزونیت کے فقدان کے باعث اس کی سیاسی اور انتظامی ساکھ مسلسل متاثر ہو رہی ہے ۔ معاشی ،انتظامی اور سیاسی مسائل کی گرداب میں گھری ریاست کو اس طرح کے فیصلوںسے نقصان پہنچ رہا ہے ۔ کیا ہمارے سیاسی قائدین اور حکمران قوتیں اس بات سے واقف ہیں کہ اس صورتحال میں پا کستان کے نوجوان کیا سوچ رہے ہیںاوروہ اس ریاست کے معاملات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ سیاسی ،انتظامی اور عدالتی اداروں سے وہ کس حد تک مایوس ہوچکے ہیں۔حکمرانوں اورعوام کے درمیان سماجی تفاوت ،طرز بود وباش اور سہولیات کے افتراق کے باعث ریاست سے ان کی بیگانگی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔ اور کیا وہ اس کے نتائج سے بھی آگاہ ہیں؟ مگر شائد نہیں۔ جب ہی تو وہ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جس سے عوام کے مفادات کا تحفظ اور ان کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہو رہا ۔ کیا اقدامات ضروری ہیں اور کتنے اہم ہیں حکومت اس سے بے نیاز ہے یا بے خبر ۔لگتا ہے قومی مسائل پر توجہ دینا ان کی ترجیح ہے ہی نہیں ۔اقتدار جس حد تک بھی انہیںحاصل ہوا ہے وہ اس سے اپنے اور اپنے جیسوں کے لئے مراعات کشید کرنا چاہتے ہیں ۔عوام کس حال میں ہیں ، ان کی مشکلا ت کیا ہیں اور انہیں کیسے کم کیا جاسکتاہے اس پر توجہ دینا ضروری نہیں۔ سیاست دانوں کو اور بالخصوص موجودہ حکمرانوں کو ،خواہ وہ وفاق میں ہوں یا صوبوں میں ،اس بات کو ہر گز نہیں بھولنا چاہیئے کہ عوام کی طاقت ہی ان کی حقیقی پشت پناہ ہے اسے زیادہ دیر تک نظرانداز کرنا خود ان کے مفاد میں نہیں ہے ۔کاش سامنے کی یہ حقیقت انہیں نظر آجائے اور سمجھ بھی۔