دُنیا میں جب کبھی کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو دو طرح کے انسان اللہ سے رجوع کرتے ہیں۔ ایک مصیبت زدہ جو اس کائنات کے مالک و مختار سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو اللہ پر پختہ ایمان اور یقین رکھتے ہیں اور جنہیں قیامت پر کامل یقین ہوتا ہے اور وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں روّیے صرف اور صرف ایک ہی تصور کی پیداوار ہیں۔ آخرت کا خوف، اللہ کے سامنے جوابدہی کا تصور۔ لیکن جب کبھی کوئی آفت آتی ہے تو میرے ملک کے کچھ دانشور نما لکھاری وہ فریضہ سرانجام دینے کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں جو تخلیقِ آدمؑ کے موقع پر ابلیس نے ادا کرنے کی قسم کھاتے ہوئے کہا تھا، ’’تیری عظمت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا‘‘ (صٓ:82)۔ اللہ اپنے منکرین کی ایک نشانی بتاتا ہے کہ وہ میری تعلیمات کا استہزاء یعنی مذاق اُڑاتے ہیں۔ ایک کالم نگار کا یہ فقرہ کس قدر تمسخر والا ہے، ’’کوئی قیامت کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے، پاکستان میں تو قیامت آ چکی‘‘۔ شاید موصوف کو قیامت کے دن کا اندازہ نہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر اس روزِ جزا کا تمسخر اُڑا رہے ہیں۔ وہ دن بہت سخت ہو گا، اس دن آپ اپنے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر، کافی پیتے ہوئے کالم نہیں لکھ سکیں گے۔ اس دن کوئی الخدمت، اخوت یا سیلانی بندگانِ خدا کی مدد نہیں کر رہی ہو گی۔ اللہ فرماتا ہے، ’’اور ہم انہیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے قبل، شاید یہ رجوع کر لیں‘‘ (السجدہ: 21)۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایک مہربان ربّ ہے، جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ دُنیا کی آبادی اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم کی طرف جا رہی ہے تو وہ مختلف آفتوں سے انہیں جھنجھوڑتا ہے تاکہ وہ مصیبت میں اس سے مدد طلب کر کے رجوع کریں یا پھر مصیبت زدوں کی مدد کر کے اس کی طرف رجوع کریں۔ دونوں صورتوں میں اللہ کی طرف لوٹنا مقصود ہوتا ہے۔ اللہ کسی کو دولت اور وسائل دے کر آزماتا ہے اور کسی سے دولت اور وسائل چھین کر آزماتا ہے۔ اسی لئے آخرت میں ہر کسی کا علیحدہ حساب ہو گا۔ ’’ہر ایک قیامت کے دن اس کے حضور یکہ و تنہا حاضر ہو گا‘‘ (مریم:95)۔ اس لئے سیلاب، زلزلے یا آفت میں اگر کوئی نیک اعمال کرنے والا مارا جاتا ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کا حقدار ہو گا، لیکن اگر اسی سیلاب، زلزلے یا آفت سے اپنے شاندار گھر اور وسائل کی وجہ سے کوئی گناہ گار بچ نکلتا ہے اور اس بات پر اِتراتا پھرتا ہے کہ دیکھو! میں نے موسمیاتی تبدیلی کو شکست دے دی اور بہترین سہولیات کی وجہ سے زلزلے سے بچ نکلا ہوں تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے روزِ حشر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حیرت ان پر ہے جو دُنیا کے عذاب کو اعمال کی سزا تصور کرتے ہیں، جبکہ اللہ نے پورے قرآنِ پاک میں کہیں بھی ایسا نہیں کہا۔ جن بستیوں کو اللہ نے اپنے عذاب سے مکمل طور پر تباہ و برباد اور نیست و نابود کر دیا ان کے بارے میں بھی لکھا کہ یہ تو ہم نے دُنیا میں ان کی مہلت ختم کر دی ہے، ان کو سزا تو روزِ حشر دی جائے گی۔ اللہ کا انصاف، روزِ حشر مکمل اور جامع ہو گا۔ دُنیا کی آفتوں میں آئی ہوئی موت یا بے گھری تو کوئی سزا ہی نہیں۔ کئی انسانوں کا قاتل، کئی معصوم بچیوں کو جنسی تشدد کا شکار کرنے والا، بیوائوں، یتیموں کی زمین ہڑپ کرنے والا، صرف پانی میں چند ڈبکیاں کھائے اور مر جائے یا زلزلے کے نیچے دب جائے۔ کیا یہ ایسے ظالم کی مکمل سزا ہے۔ مکمل سزا تو یقیناً اسی روزِ قیامت کو ہی دی جائے گی۔ اللہ نے ان زمینی آفتوں کے بارے میں واضح بتا دیا ہے کہ ’’جو بھی مصیبت آتی ہے، اللہ کے اذن سے آتی ہے‘‘ (التغابن: 11)۔ اللہ تو فرعون کے ظلم و جور کو بھی بندوں کی طرف اپنی آزمائش بتاتا ہے، ’’وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کر کے اور عورتوں کو زندہ رکھتے، یہ تمہارے ربّ کی طرف سے بڑی آزمائش تھی‘‘ (البقرہ: 49)۔ دُنیا کی آزمائشیں اسکے نظامِ کار کا حصہ ہیں۔ اللہ تو اس دُنیا میں ہونے والے لڑائی جھگڑوں کو بھی اپنا ایک ایسا عمل بتاتا ہے، جس میں قیامِ امن کی بھلائی چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ ’’اگر اللہ بعض انسانوں کو بعض کے ذریعے ختم نہ فرماتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، اللہ تمام جہانوں پر فضل فرمانے والے ہیں‘‘ (البقرہ: 251)۔ اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ غربت و بدحالی، عذاب و آفت، یا خوشحالی و امارت دونوں صورتوں میں صرف اللہ ہی سے مدد مانگی جائے، اسی سے رجوع کیا جائے اور دُنیا کی آفتوں کو معمولی سمجھ کر آخرت والی بڑی قیامت کا خوف دل میں مضبوط کیا جائے۔ لیکن ازل سے کارِ ابلیس یہی کر رہا ہے کہ انسانوں کو کسی طرح اللہ کی طرف لوٹنے سے دُور رکھا جائے۔ موجودہ دَور میں یہ کام ایسے دانشوروں نے سنبھال رکھا ہے جنہیں اپنے سائنسی علم پر زعم ہے اور قرآن کی تشریح کو بھی اپنا میدان سمجھتے ہیں۔ آج کا بے بس، کمزور اور مجبور انسان جسے کائنات کی وسعتوں کا شاید ایک فیصد بھی اندازہ نہیں، اپنے دعوئوں میں ایسے گفتگو کرتا ہے جیسے اس نے دُنیا کی ہر مصیبت پر قابو پانے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اللہ نے اپنی آفتوں کی تین اقسام بتائی ہیں، ’’وہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیجے یا تمہارے پائوں تلے سے یا تم کو گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھائے‘‘ (الانعام: 65)۔ انسان اپنی تمام تر سائنسی ترقی، سیٹلائٹ اور موسمیاتی صورتِ حال ناپنے کے جال کے باوجود اس قابل نہیں ہو سکا کہ جو طوفان سمندروں سے اُٹھ رہا ہے وہ کب اور کس وقت اپنا رُخ بدلے اور کراچی کو غرق کرنے کی بجائے ممبئی ڈبو دے۔ بار ہا ایسا ہوا کہ بستیاں خالی کروا لی گئیں اور طوفان کسی اور علاقے کو اُجاڑ گیا۔ زلزلے کے بارے میں تو انسان کی بے بسی کی کوئی حد ہی نہیں۔ انسانوں کو زلزلے کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی۔ جاپان نے زلزلوں کی وجہ سے اپنی تمام عمارات ایسی بنا لی تھیں کہ زلزلے میں پنڈولم کی طرح جھوم جاتیں اور زمین بوس نہ ہوتیں۔ یہ انسانوں کی سائنسی تدبیر کی آخری حد تھی۔ لیکن اللہ نے 11 مارچ 2011ء کو سمندر کی تہہ میں 29 کلو میٹر نیچے سے زلزلہ پیدا کیا جس سے 180 کلو میٹر سمندری ساحل پر 26 فٹ بلند لہریں اُٹھیں، 19,747 لوگ مارے گئے، 6,242 زخمی ہوئے اور 360 ارب ڈالر مالیت کی عمارات اور انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔اسی طرح تیسرا عذاب جو انسانوں کو انسانوں سے لڑانے والا ہے، اس کا شکار یہ سائنٹفک دُنیا پہلی جنگِ عظیم سے چلی آ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 50 کروڑ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یہ سب ان انسانوں نے قتل کئے ہیں، جنہوں نے ایک صدی قبل اعلان کر دیا تھا کہ اب مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد انسان نے جتنے لوگ قتل کئے ہیں، پوری انسانی تاریخ کے پانچ ہزار سالوں میں نہیں ہوئے۔اس’’عظیم‘‘ انسان کے پاس آپس کی نفرت کے اس عذاب کا بھی کوئی حل نہیں۔ اس کے باوجود یہ بے بس، کمزور اور مجبور انسان تمسخر اُڑاتے ہوئے کہتا ہے ’’کوئی قیامت کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرے‘‘۔ اللہ نے ایسے گھمنڈی لوگوں کو واضح جواب دیا ہے،’’اللہ ان کی ہنسی اُڑاتا ہے اور ان کی رسی دراز کرتا ہے‘‘ (البقرہ: 15)۔کس قدر خوفناک بات ہے کہ اللہ جن کی رسی دراز کرتا ہے انہیں غافل کر دیتا ہے اور ایک دن وہ اس محشر کے میدان میں حاضر ہونگے جس کا انکار کرتے رہے تھے۔