پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آج 23 اپریل کو کتابوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے۔ کورونا کے دوران بھی جہاں مایوسی، خوف و ہراس کا راج رہا، تنہائی میں کتابیں ہماری بہترین دوست، معاون رہیں، کتابوں کی افادیت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ٹیکنالوجی اورانٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ کتب بینی کا رجحان پہلے جیسا نہیں رہا تاہم اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کتابوں کو اپنا اثاثہ تسلیم کرتے ہیں اور باقاعدگی سے کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے ہیں۔اس بنا پر کتاب آج بھی اہم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وقت تبدیل ہوتا رہتاہے ، ثبات صرف تغیر کو ہے ، تغیر ہی زندگی کا نام ہے ۔ یورپ کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو یہ سب کچھ کتاب کے باعث ہوا ۔آج بھی یورپ میں ہر کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہے ۔ کتابوں کے عالمی دن کا منانے کا مقصد اس دن کی اہمیت کے بارے میں دُنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ یوں تو دُنیا کے اکثر ممالک میں کتابوں کا عالمی دن 23 اپریل کو منایا جاتا ہے لیکن برطانیہ اور امریکہ میں کتابوں کا عالمی دن 4 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے ’’ لکھیا لوہا ، الایا گوہا ‘‘ ، یعنی تحریر شدہ چیز لوحِ محفوظ ہے اور بولی گئی بات راکھ کی مانندہے ۔ کتاب کی اہمیت ہم اس طرح بھی واضح کر سکتے ہیں کہ خواجہ فرید قریباً بیس ہزار ایکڑ زمین اور بیش بہا املاک کے مالک تھے ، مگرا ن کی پہچان ایک دیوان جس کا وزن بمشکل آدھا کلو ہو گا ، ان کی تمام املاک پر بھاری ہے ۔ کتاب اس لئے بھی اہم ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ خود صاحب کتاب ہے ۔ کورونا کے دوران ہم نے اپنے ادارے کی طرف سے سلوگن دیا کہ گھر میں رہیں اور کتابیں پڑھیں۔ اس سلسلے میں ہم کتابیں فری دے رہے ہیں چنانچہ ہم نے اپنے دفتر میں سٹال لگایا اور پڑھنے والوں کو فری کتابیں دیں جس کی رپورٹ قومی میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل میڈیا پر بھی رپورٹ ہوئی اور علم دوست اداروں نے جھوک سرائیکی کے اس عمل کو خوب سراہا۔ آج بھی اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے کہ کسی بھی حوالے سے کتابیں گھروں تک پہنچانے کا اہتمام کریں، انڈیا کی طرح کاغذ اور پرنٹنگ میٹریل کی قیمت کم ہو تاکہ کتابیں عام آدمی کی قوت خرید کے مطابق سستی ہوں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں کاغذ اور پرنٹنگ میٹریل بہت زیادہ مہنگا ہے اور سامان تعیش کاغذ، پرنٹنگ مشینری اور پرنٹنگ میٹریل پر بھاری ڈیوٹی عائد ہے۔ تعلیم کیلئے بھی قلیل بجٹ رکھا جاتا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم کا فروغ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ سرائیکی وسیب میں علم کے فروغ، طباعت اشاعت خصوصاً کتابیں پبلش کرنے میں بہت مشکلات حائل ہیں، وزیر اعظم اور وزیرا علیٰ کو فوری طور پر سرائیکی زبان کے فروغ کیلئے پلاک کی طرز پر ادارے کے قیام کیلئے آگے بڑھنا ہو گا کہ کتابوں سے دوری علم سے دوری ہے۔ جھوک کی طرف سے شائع شدہ کتابوں کی تعداد چھوٹی اوربڑی کتابوں کو ملا کر ایک ہزار سے بڑھ چکی ہے ۔الحمد اللہ کتاب دوستی کا یہ فریضہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت ادا کیا ہے اس میں کسی بھی سرکاری یاغیر سرکاری ادارے کی کوئی سر پرستی حاصل نہیں ۔سرائیکی زبان اس وقت یونیورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہے سرائیکی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی ہو رہی ہے لیکن کسی سرکاری لائبریری نے سرائیکی کتابوں کی طرف توجہ نہیں دی ،سرائیکی ریاست بہاولپور کی سنٹر ل لائبریری جس کی بنیاد 1924میں رکھی گئی اور جس کی عمارت پوری دنیا میں ’’عالیشان ‘‘قرارپائی، جب سے پنجاب کے قبضے میں آئی ہے وہاں بھی سرائیکی کتابوں کا داخلہ بند ہے البتہ سرائیکی وسیب کی نجی لائبریریوں میں جھنڈیر لائبریری میلسی کا بہت بڑا نام ہے وہاں سرائیکی کتابیں موجود ہیں اسی طرح بہاولپور میں سیٹھ محمدعبید الرحمان کی سرائیکی لائبریری اور سید انیس گیلانی کی مبارک لائبریری میں نایاب سرائیکی کتابیں موجود ہیں ۔ اس کے ساتھ وسیب میں چھوٹی بڑی لائبریریاں ہر جگہ موجود ہیں ۔مزید لائبریریاں قائم ہونی چاہئیں ، جو احباب دلچسپی رکھتے ہوں ، ہم ان کی مدد کیلئے تیار ہیں ۔ پاکستان میں کتابوں کی طباعت و اشاعت کو دیکھتے ہیں تو قیام پاکستان سے پہلے لاہور کتابوں کی اشاعت کا مرکز چلا آ رہا ہے ، 1848ء میں کوہ نور کے نام سے چھاپہ خانہ اور اخبار شائع ہوا ، 1887ء میں شیخ غلام علی نے چھاپہ خانہ قائم کیا ، پیسہ اخبار کی اشاعت ہوئی ، 1894ء میں سید ممتاز علی نے بچوں کا رسالہ پھول اور خواتین کا تہذیب نسواں شائع کیا ۔ مولوی فیروز الدین نے فیروز سنز پرنٹنگ پریس کے نام سے ادارہ قائم کیا ۔ دوسرے اداروں کی ترتیب اس طرح ملک محمد دین اینڈ سنز (1905ء ) ، پیکو آرٹ پریس (1912ء ) ، شیخ غلام حسین (1927ء ) ، تاج کمپنی ( 1929ء ) ، ملک سراج الدین ( 1935ء ) ، ملک چنڑ دین ( 1935ء ) اور اس کے بعد پبلشنگ اداروں کے قیام کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے ۔ انہی پبلشنگ اداروں نے لاہور کو لاہور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ طباعت و اشاعت کا تمام کام دیگر زبانوںمیں ہوا ، لاہور کی اپنی زبان جسے پہلے لاہوری زبان کہا جاتا تھا ، بعد میں پنجابی زبان کہلائی میں کوئی کام نہ ہو سکا ۔ ایک بات جس کا میں خصوصیت سے ذکر کروں گا ، وہ یہ ہے کہ پاکستانی زبانوں میں بھی کتابوں کی اشاعت ہونی چاہئے ۔ سندھی خوش قسمت زبان ہے ، مگر پنجابی ، پشتو ، سرائیکی ، بلوچی ، پوٹھوہاری ، براہوی و دیگر پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ ٭٭٭٭٭