اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ نے مقبوضہ کشمیر کو فلسطین بنا دیا ہے۔اسرائیل امریکہ روس بھارت کے دفاعی حلیف اور سٹریٹجک شراکت دار ہیں ۔یاد رہے کہ آزاد بھارت کا پہلا گورنر جنرل آخری برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن تھا اور آج برطانیہ کا وزیر اعظم بھارت نژاد برطانوی ہندو رشی سیونک ہے۔ہندو بھارت کے تخلیق کار برطانوی صلیبی اور عالمی صہیونی ساہو کار ہیں۔جبکہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی اور کانگریسی قیادت نہرو گاندھی پٹیل تقسیم اور قیام پاکستان کے مخالف تھے یہ مخالفت تاحال جاری ہے۔امریکہ کی نائب صدر بھارت نژاد امریکی شہری کملا ہیرث ہے کملا کا خاوند ہیرث صیہونی وکیل یعنی قانون دان ہے ۔کشمیر عالمی حکمرانی کی راہداری ہے جس کے لئے عالمی قوتیں اور ادارے ہندو بھارت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی طاقت پاکستان کی دفاعی حلیف نہیں پاکستان اور چین باہم دفاعی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں مگر دستخطی تقریب سے قبل کوئی نہ کوئی رخنہ ڈل جاتا ہے اور معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ فی الحال پاک چین دوستی ہی بھارت اور اس کے دفاعی اور معاشی عالمی حلیف قوتوں اور اداروں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جس کے لئے سب متحدہو کر مزاحمت اور مخالفت کرتے ہیں۔ کشمیر میں سب کی دلچسپی ہے کیونکہ اس کے جغرافیائی خدوخال سیاسی تجارتی اور دفاعی لحاظ سے علاقائی اور عالمی مفادات کا محور ہیں۔کابل کشمیر اور کراچی تا گوادر ایک تجارتی راہداری ہے جس میں افغانستان پاکستان اور بھارت جیسے ملک براہ راست متعلق اور منسلک ہیں جبکہ کشمیر کی جغرافیائی سرحد چین سے بھی وابستہ ہے القصہ کشمیر ،چین ،پاکستان، افغانستان بھارت اور کشمیر تنازع سے کافی حد تک متاثر ہوں گے جبکہ وسط ایشیائی اسلامی ریاستیں بھی افغانستان اور کشمیر کی طرح خشکی سے گھری ہوئی ہیں مگر ان ریاستوں کو بھی کابل ،کشمیر تا کراچی تجارتی راہداری میسر آئی ہے ۔کشمیر کا تنازع روس کے لئے بھی اہم ہے۔ رہا معاملہ مشرق وسطیٰ یورپ افریقہ کا، تو یہ ممالک بھی کشمیر کی تجارتی راہداری کے زمینی رابطوں کا حصہ ہیں۔ ماضی قریب میں ترکیہ یورپی راہداری کا گیٹ وے تھا مگر اب یوکرین کے یہودی بندوبست نے ترکیہ کے مذکورہ اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ امریکی سمندری راہداری بحر عرب اور بحر ظلمات parefic oceanسے گزرتی ہے جبکہ گوادر تا اسرائیل زمینی اور سمندری راہداری ہے جس کے لئے بحرین اور شام کے راستے اہم تھے۔ عراق ایران جنگ، کویت پر حملہ، امریکی سازشی ترغیب اور طاقتور صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ، اسرائیلی استعمار کی بنیادی راہداری ہے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی استعمار دوبئی اور خلیج امارات تک پہنچ چکا ہے جبکہ قطر اسرائیل استعمار کا معمار امریکہ کا فوجی ہیڈ کوارٹر ہے جو سینٹ کا central commandکہلاتا ہے۔ گو فلسطین اور لبنان کی سرکار سازی اسرائیل امریکہ اور اقوام متحدہ کا متفقہ بندوبست ہے مگر اسرائیلی استعمار کے زمینی تسلط یا قبضے کے لئے فلسطینی و لبنانی عوام کو زیر کرنا ہے جو اسرائیلی حکومت اپنے تمام ظلم زیادتی درندگی اور جبر کے باوجود نہیں کر سکی۔ جنگی تباہی کرنا یا نہتے کمزور مگر پرعزم عوام اور ریاستی سرزمین پر قبضہ آسان نہیں ہوتا۔ روس اور امریکہ افغانستان میں جنگی تباہی کرنے کے بعد بھی زمینی تسلط اور قبضے کو یقینی نہ بنا سکے۔ اسرائیل فلسطین و لبنان میں ہر دم زمینی و فضائی اور سازشی تباہی کے باوجود فلسطینی و لبنانی عوام اور زمین پر قبضہ حاصل کرنے سے عاجز ہے ۔فلسطین کی حماس تنظیم اور لبنان اسرائیل 45روزہ جنگ کے باوجود اسرائیل لبنان کی ایک انچ زمین حاصل نہ کر سکے۔ حکومتی با انتظامی تسلط زمینی اور عوامی قبضہ نہیں ہوتا، بالآخر روسی و امریکی فوجی انخلاء کے ذریعے تہی دست جانا پڑتا ہے اس وقت عالمی طاقتیں اور ادارے اسرائیلی استعمار اور استحکام کے لئے کوشاں ہیں۔ ایشیا میں اسرائیلی استحکام کی بنیاد کابل تا کشمیر کراچی اور گوادر کا علاقہ ہے۔ اسرائیل کے مذموم عزائم کی راہ میں کئی مشکلات کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔اسرائیل استعمار کے لئے خود مختار کشمیرخشت اول ہے۔ اسرائیل عرصہ دراز سے کابل تا کشمیر انتظامی و تجارتی اجارہ داری کے لئے کوشاں ہے۔ امریکہ و اتحادی طاقتیں اور عالمی ادارے مثلاً اقوام متحدہ، عالمی بنک ایشیائی ترقیاتی بنک وغیرہ اسرائیلی استعمار اور استحکام کے آلہ کار ہیں اور اس کی مدد میں کوشاں ہیں۔ اسرائیل خطے میں استعماری استحکام کے لئے دو اہداف رکھتا ہے۔ پہلا ہدف جموں میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام خود مختار ریاست اور دوسرا ہدف ہندو بھارت کو پاکستان اور چین کے مقابل امریکہ و روس اور برطانیہ جیسی ایشیائی طاقت بنانا ہے۔ اسرائیل کے مذکورہ اہداف پاکستان افغانستان اور بھارت کی کسی حد تک جغرافیائی شکست و ریخت کے بغیر ناممکن ہے ۔مذکورہ ہدف کے لئے اسرائیل نے اپنا بنیادی اور ابتدائی کام مکمل کر لیا ہے۔ امریکہ و اتحادی ممالک نے کابل سے فوجی انخلاء کر لیا مگر پاک افغان سرحدی و قبائلی علاقے میں دہشت گردی کے مضبوط اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ اسرائیل جموں میں براجمان ہو کر ہندو بھارت کی مدد سے متحدہ کشمیر (اآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کی مہم چلا رہا ہے نیز اسرائیل نے ہندو بھارت کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان کی دراس روڈ سے کرتار پور راہداری تک سی پیک روڈ کی طرح بھاری ٹریفک کے لئے مضبوط اور چوڑی روڈ مکمل کر رکھی ہے ۔بدقسمتی پاکستان کی جملہ مقتدر اشرافیہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور سے کمی بیشی کے ساتھ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کے اہداف کو ممکن بنانے کا باعث بنتی رہی ہے۔ جن میں جوہری جہادی اور نظریاتی پاکستان کو نظر انداز کر کے عالمی طاقتوں اور اداروں کا غیر مشروط اور غیر مرقوم حلیف بلکہ دم چھلا بنا کر رکھ دیا گیا۔ 17اگست 1988ء کی بہاولپور فضائی سازش کے بعد بھارت اور عالمی طاقتوں نے مقبوضہ کشمیر میں شہید صدر جنرل ضیاء الحق کے دورکے تیار کردہ کشمیری مجاہدین کے وسیع نیٹ ورک کو ختم کیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے آزاد کشمیر کے اندر بھی غیر عسکری ماحول پیدا کرنے کے لئے غیر عسکری سرکاری مہم چلائی گئی اور عالمی طاقتوں اور اداروں نے بھارت کے لئے کشمیر پر خفیہ سفارتکاری کی۔ پی ٹی آئی کے دور میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کر کے بھارت کا آئینی حصہ بنا دیا اور باجوہ صاحب کا فرمان تھا جنگ کا دور ختم نیز پاکستان بھارت کا جنگی مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے جس نے پاکستان کی مقتدر ترین اشرافیہ میں فرد فرید کے ذریعے یکسر بساط الٹ دی دشمن اپنی تدبیر (سازش) کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر چلتا ہے اور اللہ کی تدبیر ہی غالب و کار آفریں کارکشا کارساز ہوتی ہے۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر اآ سکتا نہیں!! محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی یاد رہے کہ مسئلہ کشمیر کا دیر پاحل قیام پاکستان کی نظریاتی اساس کے رہنما اصول پر ممکن ہے۔ وگرنہ یہ رستی شہ رگ پاکستان کا سارا خون نچوڑ کر رکھ دے گی۔