اس بار سب سے دلچسپ اضافہ یہ ہوا ہے کہ باقاعدہ ایک میڈیا سیل بھی قائم کیا گیا ہے جسے تمامتر سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے جو پرنٹ میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بھرپور طریقے سے معلومات اور اپ ڈیٹس دے رہا ہے۔ اس منڈی کے ترجمان نے ہمیں بتایا کہ 2 ہزار ایکڑ پر قائم کی گئی ہے۔ اس منڈی میں 24 بلاکس بنائے گئے ہیں۔ جنہیں مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے خریداری سے زیادہ بھاؤ تاؤ اور سیلفیاں بنانے کا کام ہورہا تھا۔ لیکن جوں جوں عید قریب آرہی ہے اب خریدار خریداری بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ منڈی میں بڑے جانور کی فیس 1800 روپے اور چھوٹے جانور کی 1100 روپے ہے‘ جبکہ منڈی انتظامیہ کی جانب سے فی جانور 16 لیٹر پانی اور بجلی کا بھی مفت انتظام کیا گیا ہے۔ خریداروں اور بیوپاریوں کی سہولت کیلئے مختلف بینکوں کی برانچیں اور متعدد اے ٹی ایم مشین بھی لگائی گئی ہیں‘ جن سے بہت سہولت پیدا ہوگئی ہے اور جیب کٹنے اور چھیننے وغیرہ کی وارداتیں بھی کم ہوگئی ہیں۔ منڈی کے اندر انتظامیہ کی اپنی سکیورٹی موجود ہے‘ جبکہ منڈی کے باہر سہراب گوٹھ تک جگہ جگہ پولیس اور رینجر ز کی چوکیاں موجود ہیں‘ تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے فوی کارروائی ممکن بنائی جاسکے۔ وہاں موجود ڈاکٹرز نے ہمیں بتایا کہ کوشش یہ ہے کہ پوری منڈی میں فیومیگیشن اور اسپرے وغیرہ سے تمام علاقے کو ہر قسم کے جراثیم سے محفوظ کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی بیماری کا خدشہ نہ ہو۔ وہاں پر موجود لوگوں کا خیال ہے کہ منڈی میں اس بار بہت خوبصورت جانور آئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ابھی ہم جائزہ دورہ کررہے ہیں‘ عید کے قریب ہی خریداری کریں گے۔ لیکن ایک سروے کے مطابق جون کے ختم ہوتے ہوتے 20 سے 25 فیصد خریداری ہوچکی ہوگی‘ کیونکہ اب عید بھی سر پر آتی جارہی ہے۔ اونٹ کی خریداری ہو‘ بکروں کی خریداری ہو یا پھر گائے‘ بیل سب کیلئے الگ الگ بلاکس بنائے گئے ہیں تاکہ خریداروں کو سہولت حاصل ہوں۔ یہاں دیکھنے میں یہ آیا کہ عمومی طور پر لوگ مہنگائی کا رونا گاتے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت امپورٹڈ ہو یا تبدیلی سرکار عوام اپنی سہولیات دیکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ گلہ ضرور کیا کہ حکمرانوں کے اللوں تللوں میں کوئی فرق نہیں آیا اور ہم قربانی کا جانور خریدنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مہنگائی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ بلکہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مہنگائی نے صرف غریب ہی کی نہیں بلکہ اچھے کھاتے پیتے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ منڈی میں مختلف جگہوں پر جانوروں کے بھاؤ تاؤ پر بیوپاریوں اور خریداروں میں خوب بارگینگ چلتی دیکھی۔ بیوپاری قیمتیں بڑھا چڑھاکر بتارہے ہیں اور خریدار اتنا کم ریٹ لگارہے ہیں کہ عموماً سودے بگڑ رہے ہیں۔ فیصل آباد‘ ملتان اور ساہیوال سے تعلق رکھنے والے کچھ بیوپاریوں سے بات چیت ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان جانوروں کو پورا سال اچھی طرح کھلاتے پلاتے ہیں اور پھر کراچی کا رخ اس لئے کرتے ہیں کہ اس شہر کی قوت خرید کسی اور شہر کے مقابلے میں بہت اچھی ہے اور ہمیں یہاں دو پیسے زیادہ مل جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چارے کی قیمت بھی آسمان پر پہنچ کی ہے۔ پنجاب سے جانور کراچی لانا بھی آسان نہیں۔ ٹرک والوں نے پیٹرول اور ڈیزل کی وجہ سے کرایہ ڈبل کردیا ہے۔ یہاں آکر خریدار اپنی مجبوری بیان کرتا ہے‘ لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی قوت خرید نہ تھی تو وہ بچوں کے ساتھ جانوروں کی سیلفیاں بنارہے تھے۔ یہاں پر ایسے بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوئی جو گائے خریدنے آئے تھے‘ لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بکرا ہی لے لیا اور بعض ایسے تھے جو بغیر خریداری کے واپس ہوگئے۔ بہاولپور کے ایک بیوپاری نے 48 من وزنی بادشاہ کی قیمت 65 لاکھ روپے بتائی۔ ہر بیوپاری اپنے جانوروں کو نہلا دھلاکر انہیں آرا ئشی سامان پہناکر مزید خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ منڈی میں جہاں بھاری بھرکم گائے‘ بیل ‘ اونٹ موجود ہیں وہیں اعلیٰ نسل کے بکرے بھی سنت ابراہیمی کیلئے موجود ہیں۔ نوابشاہ سے آئے ہوئے شہزادہ اور بادشاہ نے دھوم مچائی ہوئی ہے۔ گلابی‘ کاموری نسل کی گائے جس کی جوڑی کی قیمت 80 لاکھ ہے سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ بعض بکروں کے کان لمبے ہیں اور کسی کی لمبائی حیران کن طور پر زیادہ ہے۔ عید قربان کیلئے بختیاری نسل کے 200کے قریب اونٹ منڈی میں موجود ہیں۔ اس میں سے ایک شخص نے 10 اونٹ ایک ساتھ خرید لئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہر طرف لوگ مہنگائی کا شکوہ اور گلہ کرتے نظر آتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کو اپنے گھر چلانے کیلئے دو دو نوکریاں کرنی پڑرہی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور یہاں کسی بھی شہر کے مقابلے میں زیادہ قربانی کی جاتی ہے‘ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ جانوروں کی خریداری کو ممکن بنانے کیلئے حکومت کیٹل فارمنگ کی طرف توجہ دے۔ اگر حکومت اس سلسلے میں ایک مربوط پالیسی بنالے تو کوئی وجہ نہیں کہ جانوروں کی قیمتوں کو کسی مناسب سطح تک نہ لایا جاسکے اور لوگوں کیلئے یہ اہم مذہبی فریضہ ادا کرنے میں سہولت پیدا نہ ہوسکے۔ ٭٭٭٭٭