مجھ سے ایک دوست نے پوچھا تم کراچی والے کیسے لوگ ہو۔ یہاں ہنگامے ہوں‘ مار دھاڑ ہو‘ قتل و غارت گری ہو‘ فسادات ہوں‘ موسم لاکھ انگڑائیاں لیتا رہے‘ سرد ہو یا گرم‘ طوفان آئے‘ بارش آئے یہ شہر جاگتا رہتا ہے۔ کبھی اس کی روشنیاں مدہم پڑتی ہیں‘ پھر یہ جگمگانے لگتا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا اژدحام ہے۔ کوئی مخصوص شاہراہ نہیں جہاں گاڑیاں‘ موٹر سائیکلیں‘ ویگنیں‘ بسیں دوڑ رہی ہوں۔ ہر طرف یہ ہنگامہ برپا ہے۔ وہ کراچی کا تقابلی مقابلہ کبھی ملتان سے کرنے لگے‘ کبھی شورکوٹ سے اور کبھی فیصل آباد سے۔ میں نے اطمینان سے ان کی طرف دیکھا اور انہیں سمجھایا۔ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ 40 کلو میٹر سے بھی زیادہ مشرق و مغرب شمال و جنوب ہر طرف پھیل چکا ہے۔ انسان پر انسان ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ آبادی بھی بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہی ہے اور شہر تیز رفتاری سے جہاں اسے جگہ مل رہی ہے پھیلتا جارہا ہے۔ اب یہ شہر دائیں بائیں نہیں ملٹی اسٹوریز بنتا جارہا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ کراچی کے کیا کیا رنگ ہیں۔ بیان کرنے لگیں تو پوری کتاب بن جائے گی‘ لیکن آج کا موضوع ذرا مختلف ہے۔ دنیاکے 57 ملکوں کے مقابلے میں زیادہ آبادی والے اس شہر میں 15 سے بیس لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نوازا ہوا ہے۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں خواندگی کی شرح پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ بیروزگار بھی اسی شہر میں بستے ہیں۔ ہاں اس شہر کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہاں پاکستان بھر میں سب سے زیادہ خیرات‘ زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ فلاحی ادارے موجود ہیں۔ سب سے زیادہ دولت بھی یہیں ہے اور یہ شہر ایسا ہے کہ جو آتا ہے اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتا ہے۔ یہاں رحیم یار خان سے زیادہ سرائیکی بستے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس کے مسائل جنگلی بیل کی طرح پھیلے ہوئے ہیں وہیں اس شہر میں سب سے زیادہ مواقع ہیں۔ یہ شہر ہر تہوار کے موقع پر سب سے زیادہ جگمگاتا ہے۔ اس شہر میں تہواروں کے موقع پر اربوں روپے کی خریداری ہوتی ہے۔ اب عیدالاضحی آرہی ہے۔ اپنے ساتھ خوشیاں لارہی ہے۔ اس لئے بڑی عید بڑا شہر اور بڑی خوشیاں۔ اہل کراچی کا عجیب مزاج ہے کہ خوشیوں کا اظہار بھرپور انداز میں کرتے ہیں۔ آپ اندازہ کیجئے کہ اس وقت مہنگائی اپنی عروج پر ہے۔ اتنی زیادہ جس کے اثرات اور ’’شاک‘‘ سب محسوس کررہے ہیں‘ لیکن مجال ہے کہ شہر سے کئی کلومیٹر دور مویشی منڈی سے یہ مہنگائی انہیں جانے سے روک سکے۔ رونقیں شروع ہو گئی ہیں اور جیسے جیسے عیدالاضحی قریب آرہی ہے اس منڈی کی رونقیں بڑھتی جارہی ہیں۔ جس طرح ملک بھر سے آنے والے مویشیوں کے بیوپاری پورے سال بقرعید کا انتظار کرتے ہیں ان سب کا رخ پاکستان کے طول و عرض سے کراچی کی طرف ہوتا ہے۔ اگر آپ کو کراچی کے لوگوں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کے ذوق و شوق کو دیکھنا ہو تو وہ آپ کو اس مویشی منڈی میں نظر آئے گا۔ جو جانوروں سے محبت کرتے‘ ان کے ریٹ پوچھتے‘ بھاؤ تاؤ کرتے نظر آئیں گے۔ ہم گزشتہ دو دہائیوں سے اس منڈی کا وزٹ کرتے رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنی تیزی سے یہ شہر آبادی اور رقبہ کے اعتبار سے پھیلتا جارہا ہے اسی رفتار سے ہر سال اس منڈی کا سائز بھی بڑھتا جارہا ہے۔ 2 ہزاٹر ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط مویشی منڈی میں تقریباً 6 لاکھ جانوروں کی گنجائش موجود ہے اور گزشتہ ہفتے کی رپورٹ کے مطابق تقریبا ڈیڑھ لاکھ مویشی اس منڈی میں پہنچ چکے ہیں۔ جوں جوں خریداروں کا رش بڑھ رہا ہے بھاؤ تاؤ چل رہے ہیں پاکستان بھر سے مویشی ٹرکوں میں اس منڈی تک پہنچ رہے ہیں۔ مویشی منڈی کے ایڈمنسٹریٹر نے ہمیں بتایا کہ ہم نے جانوروں کی خریداری خصوصاً خواتین اور فیملیز کی سہولت کیلئے باقاعدہ وی آئی پی بلاکس بنائے ہیں تاکہ خواتین بھی خریداری میں اپنی پسند کے جانور خرید سکیں۔ ایڈمنسٹریٹر مظفر حسن نے بتایا کہ اس بار زبردست انتظامات کئے گئے ہیں تاکہ جہاں جانوروں کو ضروری سہولیات بہم پہنچائی جاتی رہیں وہاں خریداروں کو بھی خریداری میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ انہوں نے بتایا کہ بچے‘ نوجوان اور خواتین ایک سے بڑھ کر ایک تیاری کے ساتھ آرہے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ سیلفیاں بنوارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب عید میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ اب یہاں 24 گھنٹے ایک میلے کا سماں ہے۔ خریدار آرہے ہیں‘ جارہے ہیں۔ جانوروں میں مختلف بیماریوں خصوصاً ’’لمپی اسکن‘‘ بیماری کے حوالے سے ایڈمنسٹریٹر کا کہنا تھا کہ انٹری پوائنٹ پر ایک مارشیلنگ ایریا ہے‘ جہاں ڈاکٹروں کی ٹیم ہر جانور کا معائئنہ کرتی ہے اور اس کے بعد ہی جانور کو ایریا میں داخل ہونے کی اجازت ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منڈی میں ایک ماہ سے جانوروں کی انٹری ہورہی ہے اور اگر ڈاکٹرز کو کسی بھی گاڑی میں کسی جانور کی صحت کے متعلق شک ہوتا ہے تو پوری گاڑی کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تقریبا 10 ٹرک واپس بھجوائے جاچکے ہیں۔ یہ سب کچھ عام لوگوں کی صحت اور سب کو محفوظ رکھنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ منڈی میں وقتاً فوقتاً فیومیگیشن اسپرے بھی کیا جارہا ہے۔ اس بار سب سے دلچسپ اضافہ یہ ہوا ہے کہ باقاعدہ ایک میڈیا سیل بھی قائم کیا گیا ہے جسے تمامتر سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے جو پرنٹ میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بھرپور طریقے سے معلومات اور اپ ڈیٹس دے رہا ہے۔ اس منڈی کے ترجمان نے ہمیں بتایا کہ 2 ہزار ایکڑ پر قائم کی گئی ہے۔ اس منڈی میں 24 بلاکس بنائے گئے ہیں۔ جنہیں مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے خریداری سے زیادہ بھاؤ تاؤ اور سیلفیاں بنانے کا کام ہورہا تھا۔ لیکن جوں جوں عید قریب آرہی ہے اب خریدار خریداری بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ منڈی میں بڑے جانور کی فیس 1800 روپے اور چھوٹے جانور کی 1100 روپے ہے‘ جبکہ منڈی انتظامیہ کی جانب سے فی جانور 16 لیٹر پانی اور بجلی کا بھی مفت انتظام کیا گیا ہے۔ خریداروں اور بیوپاریوں کی سہولت کیلئے مختلف بینکوں کی برانچیں اور متعدد اے ٹی ایم مشین بھی لگائی گئی ہیں‘ جن سے بہت سہولت پیدا ہوگئی ہے اور جیب کٹنے اور چھیننے وغیرہ کی وارداتیں بھی کم ہوگئی ہیں۔ منڈی کے اندر انتظامیہ کی اپنی سکیورٹی موجود ہے‘ جبکہ منڈی کے باہر سہراب گوٹھ تک جگہ جگہ پولیس اور رینجر ز کی چوکیاں موجود ہیں‘ تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے فوی کارروائی ممکن بنائی جاسکے۔ (جاری ہے)