شہر بہت ظالم ہوتے ہیں۔ شہر جس طرح گاؤں کھا جاتے ہیں۔ شہر جس طرح دیہاتوں کو اپنی کالونیاں بنا کر رکھتے ہیں۔ شہر جس طرح دیہاتوں سے دودھ اور مکھن لیتے ہیں اور بدلے میں بدبودار دھواں دیتے ہیں۔ شہر جس طرح دہاتیوں کی محنت اور مشقت سے بنتے ہیں اور بعد میں انہیں اور پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ شہر جس طرح دیہاتوں کو مزدور بنا کر رکھتے ہیں اور ان کے خون پسینے سے اپنے آپ کو چمکاتے دمکاتے ہیں۔ شہر جس طرح دیہاتوں کا بے انتہا استحصال کرتے ہیں۔ اس پر ایک ناول لکھ جا سکتا ہے۔ شہر گاؤں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور پھر اس پر حکمرانی کرتے ہیں۔ وہ ایک دلخراش داستان ہے۔ قصہ غم ہے۔ ہم شہروں میں اس طرح رہتے ہیں کیا اس کو رہنا کہنا چاہیے؟ جس طرح گلزار کا گمنام ہیروراس نظم میں رہتا ہے۔ ’’ایک ڈائری کا مونتاج نہ جانے کس کی یہ ڈائری ہے؟ نہ نام لکھا ہے نہ کوئی پتہ ہے اس میں ہر ایک کروٹ میں یاد کرتا ہوں تم کو لیکن یہ کروٹیں لیتے رات دن یوں مسل رہے ہیںمیرے بدن پہ تمہاری یادوں سے نیل پڑ گئے ہیں ایک اور صفحے پہ یہ لکھا ہے کبھی کبھی رات کی سیاہی کچھ ایسی چہرے پہ جم سی جاتی ہے لاکھ رگڑوں لاکھ رگڑوں سحر کے پانی سے لاکھ دھوؤں مگر وہ کالک نہیں اترتی ملو گی جب تم پتہ چلے گا میں اور بھی کالا ہوگیا ہوں یہ حاشیے میں لکھا ہوا ہے‘‘ جی ہاں!شہر بہت ظالم ہوتے ہیں۔مگر جس طرح ہر مرد بے وفا ہوتا اور ہر عورت با وفا نہیں ہوتی۔ اس طرح کوئی کوئی شہر مظلوم بھی ہوتا ہے۔ کراچی میں رہتے ہوئے۔ کراچی کو دکھ سہتے دیکھتے ہوئے۔ اکثر یہ خیال آتا ہے کہ اس شہر کا کوئی اپنا نہیں ہے۔ یہ بات آج کی نہیں ہے۔ کراچی میں ہمیشہ سے سیاسی بینر لہراتے رہتے ہیں۔ کراچی ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے درمیاں کشمکش میں رہتا ہوا ایسا شہر ہے، جیسے روس کے عظیم ناول نگار کا مشہور ناول ’’جرم اور سزا‘‘ کا ہیرو۔ وہ ہیرو جس کا نام راسکلنیکوف ہے۔ وہ ہیرو بظاہر تو قاتل ہے مگر اس کے دل میں ایک مقتول آخر تک موجود رہتا ہے۔ کراچی میں اس ناول کا ہیرو محسوس ہوتا ہے۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس کی دیواروں پر اچھی باتیں کم اور بری گالیاں زیادہ لکھی گئی ہیں۔ جس کی سڑکوں پر صرف گاڑیاں اور رکشے ہی نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان جلائے گئے ہیں۔ بوری بند لاشوں کی سیاست سے لیکر بھتے کی پرچیوں تک اس شہر میں ہر جرم پیدا ہوا ہے۔ اس شہر میں ہر ظلم اور ستم ایجاد ہوا ہے۔ شہر بھی تو ایک بستی ہوتا ہے۔ اگربقول نون میم راشد ’’درخت کا دل‘‘ ہوتا ہے تو شہر کا بھی تو ایک دل ہوتا ہوگا۔ وہ دل جس میں ہر طرح کے نشتر ٹوٹتے ہیں۔کل کی طرح آج بھی اس شہر کی مالکی پر سیاسی جنگ جاری ہے۔ ہر لسانی گروہ اور ہر سیاسی جماعت اور ہر مافیامدعی ہے کہ کراچی اس کا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کراچی کسی کا نہیں۔ اگر کراچی کسی کا ہوتا تو کیا اس شہر میں اس طرح جرم پلتے؟ اگر کراچی کسی کا ہوتا تو کراچی مقتل بنتا؟ یہ شہر ہمیشہ امن کی بھیک مانگتا ایک ایسا فقیر ہے جس میں فیشن اور ٹینشن ایک ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ اس شہر کے بارے میں فہمیدہ ریاض نے ایک مختصر سا ناول لکھا تھا اور اس ناول کی ابتدا اس شہر سے ہوتی ہے: ’’جب نام تیرا لیجئے تب چشم بھر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے‘‘ میرا خیال ہے کہ یہ شعر اپنے چند الفاظ میں کراچی کی پوری کہانی بیان کرتا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح گلزار نے ہی لکھا تھا: ’’نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں مصرے اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں اڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم سادہ کاغذپہ لکھ کے نام تیرا بس ترا نام ہی مکمل ہے اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی؟‘‘ ’’کراچی‘‘ ایک لفظ ہے۔ ایک نام ہے۔ اس نام میں کس قدر زہر بھرا ہوا ہے!!؟ کراچی ایک ایسا حرف ہے جس حرف کے لیے فیض نے فرمایا ہے: ’’آج اک حرف پھر ڈھونڈھتا پھرتا ہے خیال آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال مد بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی حرفِ نفرت کوئی، شمشیرِ غضب ہو جیسے تا ابد شہرِ ستم جس سے تباہ ہو جائیں اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیہ ہو جائیں کراچی کا درد بیان کرنے کے لیے کسی سیاسی تقریر کی نہیں بلکہ ادبی تحریر کی ضرورت ہے۔ کراچی ایک لٹا لٹایا شہر ہے۔ ایک ایسا شہر جس کو غیروں نے کم اپنوں نے زیادہ لوٹا ہے۔ جس طرح ایک مغربی دانشور نے لکھا ہے کہ ’’مجھے اپنے دوستوں سے بچاؤ۔ دشمنوں سے میں خود نمٹ لوں گا‘‘کراچی شہر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے۔ کراچی کے لیے ایک سندھی دانشور نے کیا خوب لکھا ہے ’’کیا کراچی شہر ہے؟ کس نے کہا کہ کراچی شہر ہے؟ کراچی تو معصوم بچہ ہے جو بارود کے ڈھیر پر بیٹھا چاکلیٹ چبا رہا ہے‘‘ کراچی کے لیے کیا لکھا جائے؟کراچی کے لیے لکھنے کی ضرورت ہے یا کچھ کرنے کی؟ یہ سوال آتے ہی ذہن میں ایک اور سوال گونجنے لگتا ہے کہ ’’کیا لکھنا کوئی کام نہیں؟‘‘ کراچی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کراچی کے لیے آج تک کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔ کراچی پر لکھا جائے۔ کراچی پر لکھا جانا چاہئیے۔ کراچی کی فریاد۔ کراچی کی دہائی۔ کراچی کا دکھ۔ کراچی کی پریشانی۔ کراچی کی کہانی۔ اسلام آبادمیں جب بہت زور کی بارش ہوتی ہے اور ایک ادیب بوتل کھول کر کھڑکی سے دور دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ ایک نیا ناول لکھے۔ ’’باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی‘‘ یہ ناول تو لکھا جا چکا ہے۔ یہ تو ایک بہت سطحی سا رومانوی ناول ہے۔ کراچی کے لیے تو قرت العین جیسا دل اور دماغ چاہئیے۔ کراچی کا حق ادا صرف اس کے ہاتھ کر سکتے ہیں اور وہ ہی لکھ سکتے ہیں ’’خون کی بارش میں بھیگتا ہوا شہر‘‘ اور خون ہمیشہ جسمانی نہیں ہوتا۔ ایک احساساتی اور روحانی خون بھی ہوتا ہے جو مجبور انسانوں کی آنکھوں میں منجمد ہوجاتا ہے۔