سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔چند ماہ پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ پاکستان میں وہی لوگ اقتدار میں آ جائیں گے جو کرپشن کا استعارہ بن چکے تھے اور جس جماعت کے رہنما جلسہ عام میں اداروں اور ان کے سربراہوں کو گالیاں نکالتے تھے۔عدالت کے حکم کے مطابق ن لیگ کے قائد کو پاکستان میں ٹیلی ویژن پر دکھایا جانا ممنوع قرار پایا تھا اور ان کی تقاریر بھی نشر نہیں ہو سکتی تھیں۔وقت کتنی جلدی بدلا ہے کہ اب ان کے لئے سفارتی پاسپورٹ کا حکم جاری کیا گیا ہے حالانکہ وہ عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں۔اب وہ ایک نئے کروفر کے ساتھ پاکستان میں وارد ہوں گے اور حکمران جماعت ان کے ایک اشارے پر ہر قانون کو تہہ و بالا کر دے گی اور شاید وہ چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنا دیے جائیں۔ سیاست میں سب ممکن ہے اور پاکستان کی سیاست میں تو یہ خاص طور پر ایک زندہ حقیقت ہے کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے اور ایک دوسرے کو ملک دشمن قرار دینے والے رہنما اس طرح شیرو شکر ہوں گے کہ ن لیگ کے وزیر اعظم ہوں اور شاید پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر متمکن ہوں۔کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ محترمہ مریم نواز‘ عمران خان کا اصل عرصہ اقتدار ختم ہونے سے پہلے ہی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے پرائم منسٹر ہائوس میں داخل ہو رہی ہوں گی۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی پیشین گوئی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔آج کیپٹن صفدر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان قصہ پارینہ بن چکے ہیں اور ن لیگ دو تہائی اکثریت سے الیکشن جیتے گی۔یہ ضروری نہیں کہ درست ہو۔ دوسری طرف عمران خان جو اپنے اقتدار کے دوران تیزی سے مقبولیت کھو رہے تھے آج مقبولیت کی ایک نئی لہر پر سوار ہیں عمران خان کی خواہش پر پورا پاکستان رمضان کے دوران بغیر کسی لیڈر کے احتجاج کے لئے باہر نکلا۔عوام کا یہ ردعمل اس قدر طاقتور تھا کہ اس نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔13اپریل کو عمران خان کا جلسہ پشاور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔حالانکہ رمضان کے مہینے میں عوام کو جلسے کے لئے باہر نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے عمران خان نے رات کے بارہ بجے جلسے سے خطاب کیا اور لاکھوں لوگوں کے لہو کو گرمایا۔اب عمران خان نے کراچی اور لاہور میں جلسوں سے خطاب کرنا ہے اگرچہ عمران خان کے پاس ان جلسوں میں کہنے کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہو گی لیکن عوام نئی بات سننے کے لئے نہیں بلکہ عمران خان اور اس کے اینٹی امریکہ بیانئے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے باہر نکل رہے ہیں۔عمران خان کا بیانیہ عوام کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔پاکستان کے عوام سادہ ہیں ایک طرف تو وہ امریکی پاسپورٹ لینا چاہتے ہیں اور دوسری طرف جو لیڈر بھی امریکہ کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کرے اسے دیوانگی کی حد تک چاہنے لگتے ہیں اگر کوئی ذی ہوش شخص عمران خان کی حکومت کی کمزوریوں کی بات کرے اور اس کے طرز حکومت پر اعتراض کرے تو ان کے دیوانے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور فوراً دوسری سیاسی جماعتوں کے عیب گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ہمارا المیہ یہی رہا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنی خوبیوں کی بجائے دوسروں کے عیوب پر زندہ رہنا چاہتی ہیں۔ عمران خان نے بھی اپنے اقتدار کے دوران سابقہ حکومت کی کرپشن کی رٹ لگائے رکھی اور اپنے کام پر توجہ مرکوز نہیں کی ،ان کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی ناقابل رشک ہے اور وہ ایک بھی سیاسی لیڈر پر کرپشن ثابت نہیں کر سکے اور کسی ایک کیس کو بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے۔اب وہ اس ناکامی کا ملبہ دوسری قوتوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ آج اپنے آپ کو اس قدر آزاد اور حق گوئی کا علمبردار ثابت کر رہے ہیں، تو اس وقت انہوں نے کیوں آزادانہ فیصلے نہیں کئے اور کیوں دوسروں کے کہنے پر کمزور فیصلوں کا ساتھ دیا۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان بیرونی اور اندرونی سازش کا شکار ہوئے ہوں لیکن اس سازش کے لئے سازگار فضا مہیا کرنے کے وہ خود مرتکب ہوئے ہیں۔امریکہ نے تو انہیں مشورہ نہیں دیا تھا کہ وہ عثمان بزدار کو سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ مقرر کریں اور امپورٹڈ مشیروں کو پاکستان پر مسلط کریں ،آج وہ نئی حکومت کو امپورٹڈ کا طعنہ دے رہے ہیں لیکن ان کے بیشتر مشیر اسی ملک سے امپورٹ کئے گئے تھے، جو ان کی حکومت کی ناکامی کا سبب نے۔ان کی حد سے زیادہ بڑی انا اور خود پسندی ان کے مخلص اور کارآمد دوستوں کی دوری کا سبب بنی۔سازش وہی کامیاب ہوتی ہے جہاں سازگار فضا موجود ہو اور یہ سازگار فضا مہیا کرنے میں عمران خان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ہیں ،وہ پچھلے الیکشن کے وقت بھی مقبول تھے اور اسی لئے وزیر اعظم بنے تھے۔ان کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ وہ سازش کا اس قدر آسان ہدف کیوں بنے۔انہیں غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کی تقریباً سو فیصد سیاسی جماعتیں ان کے خلاف کیوں صف آراء ہیں۔عمران خان کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے غیر فطری اتحاد وجود میں آئے ہیں اور سیاسی دشمن اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جنگ میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے کہ آپ کوشش کرتے ہیں کہ سارے دشمنوں سے بیک وقت سامنا نہ ہو۔دشمنوں سے ایک ایک کر کے نمٹا جاتا ہے اور اسے شکست دی جاتی ہے۔عمران خان نے اصول کو یکسر نظر انداز کر دیا۔انہوں نے ملک کی ساری سیاسی جماعتوں اور سارے مافیاز کو بیک وقت چیلنج کر دیا۔اس کے نتیجے میں وہ سب اکٹھے ہو گئے اور عمران خان کو شکست فاش دی۔انہیں کرکٹ کی دنیا سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔سیاست کرکٹ کا میچ نہیں ہے۔ سیاست کرکٹ سے زیادہ شطرنج کا کھیل ہے۔اس میں عقل کی ضرورت ہے۔مقبولیت تو انہیں پہلے بھی حاصل تھی اور اب بھی حاصل ہے لیکن وہ کافی ثابت نہیں ہوئی۔اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی غلطیوں پر غور کریں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ورنہ وہ ’’مداخلت‘‘ اور ’’سازش‘‘ میں فرق تلاش کرتے رہیں گے اور ان کے مخالفین انہیں شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔سیاست میں دوست بنانے پڑتے ہیں۔وفاداری ہمیشہ دوطرفہ ہوتی ہے،حکومت ہمیشہ نہیں رہتی۔کل آپ توشہ خانے کے مقدمات بنا رہے تھے۔آج شہباز شریف نو کروڑ کی گھڑی اور 16کروڑ کی انگوٹھی کا ذکر کر رہے ہیں۔وقت بدلتا رہتا ہے۔سیاست ممکنات کا کھیل ہے آپ کو سٹریٹجی بدلنا پڑے گی ،صرف مقبولیت ہی کامیابی کی دلیل نہیں ہے۔