یوں تو جنوبی ایشیاء کے انتہائی بدقسمت خطہ کشمیر پر لاتعداد کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں، تاہم امریکی ریاست پنسلوینیہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر، حفصہ کنجوال کی حال ہی میں شائع کتاب Colonizing Kashmirتحقیق کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے۔یہ کتاب مجموعی طور پر 1953ء کے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم کی پوسٹ ہوتی تھی) شیخ محمد عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند پر بٹھایا گیا تھا۔ اگلے دس سال تک بخشی اقتدار میں رہے اور ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام ، دام، ڈنڈ اور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، جس سے وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے تائب ہوکر بھارتی یونین میں ضم ہونے کیلئے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے ، کہ 5اگست 2019کے بعد آئے دن جو اقدامات کئے جا رہے ہیں، کم وبیش اسی طرح کے اقدامات ، جن میں مقامی آبادی کو محصور کرنے ، میڈیا پر قدغن اورمفت یا کم قیمت پر چاول فراہم کروانا وغیر ہ شامل رہے ہیں، بخشی دور میںبھی کشمیر میں آزمائے گئے ہیں۔ کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔ 384 صفحات پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار اپناکر ، جب شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو 1949ء میں ہی وہ بھارتی حکمرانوں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرازم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینابھارت میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجہ کے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ 1953ء تک بھارتی لیڈروں بشمول شیخ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور 9اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ گلمرگ سیر و تفریح کرنے کیلئے گئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپرد کی گئی۔جس کو ابھی تک کشمیری بکائو اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، گو کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کا دور نہایت ہی امتیازی رہا ہے۔ کنجوال کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی ہے کہ سری نگر کی حضرت بل درگاہ کے قریب واقع نسیم باغ کے قبرستان میں جہاں شیخ عبداللہ کی قبر ہے ،کی رات دن، پولیس کے دستے حفاظت کرتے ہیں۔کشمیریوں کے حق خودارادیت کے چیمپیئن ،قد آورلیڈر ہونے ا ور جیل جانے کے باوجود، 1990ء کی دہائی میں جب مسلح عوامی بغاوت شروع ہوئی تو عبداللہ کی قبر کی حفاظت ایک ایشو بن گئی۔ کشمیر کی نئی نسل نے ان کو نئی دہلی کے ساتھ 1975ء کے معاہدے کیلئے معاف نہیں کیا، جبکہ ان کے دور اقتدار میں ہی شاید پہلی بار کشمیریوں کو بااختیار ہونے اور اپنے ووٹ کی قدر کا احساس ہوا۔ اس کے برعکس سرینگر کے مرکز میں واقع میر سید علی ہمدانی یا شاہ ہمدان کی خانقاہ کے احاطہ سے ذرا دور بخشی غلام محمد کی قبر ہے، جس کی حفاظت کیلئے انتظامیہ کو کبھی پولیس کی مدد نہیں لینی پڑی۔ شاید کسی کو اس قبر کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہے۔ کتاب کے مطابق 1952ء میں نہرو نے شیخ کو ایک خط میں بتایا تھا کہ دستاویز الحاق کی آئین ساز اسمبلی میں توثیق کرنا ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ بیرونی طاقتیں ، جمو ں و کشمیر میں استصوا ب کروانے پر دبائو ڈال رہی ہیں اور اس دبائو کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی قانونی اور عوامی تائید والے دستاویز کی ضرورت ہے۔ ان کی تجویز تھی کہ چونکہ آئین ساز اسمبلی عوامی ووٹ سے منتخب ہوئی ہے، اس لئے عوام کے منتخب نمائیندوں کے ذریعے کی گئی توثیق کو بھارت رائے شماری کے متبادل کے بطور پیش کرے گی۔ مگر جب شیخ نے ان کو یاد دلایا کہ رائے شماری کے حوالے سے جو وعدے مختلف فورمز پر کئے گئے ہیں ، تو ان کا کیا ہوگا؟ ، تو نہرو نے بتایا کہ ’’ وادی کشمیر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لوگ، اگرچہ ذہین اور ہنر مند ہیں، وہ کسی قسم کے تشدد اور غیض و غضب سے دور رہنے والے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’وہ (کشمیری) نرم مزاج کے مالک اور آسان زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔عام لوگ بنیادی طور پر چند چیزوں میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ایک ایماندار انتظامیہ، سستی اور مناسب خوراک۔‘‘ چونکہ یہ قوم صدیوں سے قحط اور کم خوراک کی شکار رہی تھی، نہرو کا کہنا تھا :کہ ’’اگر وہ یہ حاصل کرتے ہیں، تو وہ کم و بیش مطمئن رہیں گے اور حق خود ارادیت اور رائے شماری کو بھول جائیں گے۔‘‘ نہرو کی اسی منطق کو اگلے دس سال تک بخشی غلام محمد نے اپناکر اپنی حکومت کی اساس بنادیا۔ بخشی غلام محمد 20 جولائی 1907ء کو سری نگر کے مرکز میں صفاکدل نامی محلے میں پیدا ہوئے۔ اپنے چچا کی مالی مدد سے، بخشی نے مقامی عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم توحاصل کی،مگر آٹھویں جماعت مکمل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔۔اپنی تحقیق کے دوران کنجوال نے کئی ایسی کہانیاں ریکارڈ کیں ہیں، جن میں بتایا گیا کہ بخشی سڑک پر گاڑی کھڑ ی کرکے لوگوں کو بلا کر ان کی استعداد معلوم کرتے تھے، جونہی معلوم ہوتا تھا کہ مذکورہ شخص کسی طرح پڑھا لکھا ہے، تو وہیں پر تقرری کا پروانہ تھما دیتے تھے۔ تقرری کے پروانے لکھنے کیلئے وہ کاغذ ڈھونڈنے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ کبھی ماچس کی ڈبیہ پر اور تو کبھی سگریٹ پیکٹ کے کاغذ کو پھاڑ کر اسی پر متعلقہ محکمہ کو اس شخص کی تقرری کا حکم نامہ صادر کردیتے تھے۔انہوں نے ہفتہ وار اپنے دفتر میں عام لوگوں سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا اور موقع پر ہی انتظامیہ کو حکم دیکر اسکو فالو اپ بھی کرتے تھے، جب تک سائل کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا۔ اپنے دور میں شیخ عبداللہ نے بھارتی حکومت سے فنڈز لینے سے احتراز کیا تھا۔ ان کے دور میں کشمیر جانے کیلئے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔ اسی طرح کسٹم کا سسٹم قائم تھا۔ جس سے ریاست کو آمدن ہو جاتی تھی۔وہ کشمیریوں کو باور کرارہے تھے کہ وہ چاول کھانا ترک کرکے آلو کو بطور غذا اپنائیں، کیونکہ چاول درآمد کرنے پڑتے تھے۔ اپنے جدید ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنے اور نئے کشمیر کے منشور کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بخشی نے جب نئی دہلی سے مالی امداد طلب کی۔تو ان کو بتایا گیا کہ الحاق کی توثیق کے بعد ہی وہ مالی امداد فراہم کرسکتے ہیں۔ رائے شماری کے کسی بھی امکان کو روکنے کے لیے، فروری 1954ء میں، بخشی نے دستور ساز اسمبلی سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی توثیق کرنے کی قرارداد پیش کی، جس کو منظور کیا گیا اور معاشی طور پر کشمیر کو بھارت کے ساتھ ضم کیا گیا۔ (جاری ہے)