5 اگست 2019 ء کے بعد مقبوضہ کشمیر میں رہنے والوں پر کیا قیامت ٹوٹتی رہی۔اس دوران دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے اس ساری صورتحال کو کس انداز میں دیکھا اور دباؤ کے باوجود کس طرح حق گوئی کا فریضہ سرانجام دیا میرے ہاتھ میں یہ کتاب اسی بات کا مظہر ہے۔ کتاب کا نام ہے،کشمیر: پانچ اگست 2019 کے بعد اسے سلیم منصور خالد نے مرتب کیا ہے۔کتاب میں چوبیس مصنفین کے مضامین شامل ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے، جو پروفیسر خورشید احمد کے زیر ادارت ماہنامہ ترجمان القران میں شائع ہوتے رہے۔لکھنے والوں میں سر فہرست سید علی گیلانی کا نام ہے،جو قائد تحریک حریت کشمیر تھے اور پوری زندگی جنہوں نے اپنی کشمیر کی آزادی کے نام وقف کی مفتی منیب الرحمن ہیں، پروفیسر خورشید احمد رادھا کمار پرنیکا دوبے،افتخار گیلانی ارشاد محمود اور کئی دوسرے دانشور حضرات شامل ہیں۔ سید علی گیلانی کے مضمون سے اقتباس: 5 اگست سے شروع کیے جانے والے فسطائی اقدامات سے بھارت کا مکروہ اور پرفریب چہرہ پہلے سے کہیں زیادہ بھیانک صورت میں دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ ریاست جموں کشمیر کے حصے بخرے کرنے اور انہیں دلی کے زیر انتظام لانے کے اقدام سے بھارتی دہشتگرد اور توسیع پسند حاکموں نے جموں کشمیر کو نوآبادیاتی کالونی بنانے کے لیے اپنے نام نہاد جمہوریت کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔ ڈیویکا ایس مدراس ہائی کورٹ کے وکیل ہیں، اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ضلع شپیاں جموں کشمیر میں ہر تیسرے بچے میں دماغی بیماری تشخیص کی جا سکتی ہے۔کشمیری بچے سیاسی کھیل کے مہرے بنائے جا چکے ہیں،حکومت چاہتی ہے کہ ان بچوں کو سزا دی جائے جو حکومت کے اختیار کو للکارتے ہیں۔ کشمیری بچے قیدو بند میں اور بندوقوں کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں،ان میں سے بہت سوں کے والدین غائب کر دیے جاتے ہیں،اس لیے انہیں مجبوری اور قابل رحم حالت میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے دیکھ بھال اور نگہداشت کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے، خاندانی احوال کی تباہی، محفوظ مقامات کی عدم دستیابی، تعلیم کی بربادی اور صحت کے سہولتوں کے فقدان کے باعث سماجی ڈھانچے پر دباؤ اور تناؤ ان بچوں کو اس قدر شدید ذہنی صدموں اور دھچکوں کا شکار کر دیتا ہے کہ ان میں سے اکثر بچے بچپن ہی میں اپنا بچپنا کھو دیتے ہیں" مقبوضہ کشمیر کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے مسلسل جبر اور ظلم کا ماحول کئی طرح کی نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ معروف کشمیری صحافی افتخار گیلانی کے کئی مضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔"کشمیری بچے انصاف اور توجہ کی تلاش میں" میں ظلم اور جبر کے ماحول میں کشمیری نوجوانوں اور بچوں کے ڈپریشن اور نفسیاتی دباؤ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔جنگ اور فساد کا سب سے زیادہ خمیازہ خواتین اور بچوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگست 2019ء سے لیکر اب تک کے عرصے میں جموں کشمیر کے بچوں میں دماغی اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔18 ماہ سے کم عمر کے دودھ پیتے بچے بھی پیلٹ گن کے چھروں کا شکار ہو گئے،آخر اس عمر کے بچے کیسے جلوس یا کسی احتجاج کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے ان کو یہ سبق سکھانا پڑا۔ اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ 94 فیصد افراد خطے میں ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ بچوں میں ذہنی تناؤ ‘غصہ‘ چڑچڑا پن خواب اور صدمے کی کیفیت جیسی شکایات عام ہیں۔کتاب میں ، سید علی گیلانی کو خراج تحسین پیش کرتا مضمون ،سید علی گیلانی ایک مہ کامل! پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پر نیکا دوبے ،بی بی سی لندن کی ہندی سروس سے کی نمائندہ خصوصی ہیں وہ ایک کتاب نو نیشن فار وومن کی مصنفہ بھی ہیں ان کا ایک مضمون کشمیر پر چھائی ڈپریشن کی چادربھی قابل توجہ ہے۔مصنفہ نے یہ مضمون بڑے درد دل سے تحریر کیا ہے تحریر بھی بہت خوبصورت ہے اس میں انہوں نے کشمیر کے باسیوں خصوصاً وہاں کے نوجوان کے ذہنی انتشار اور ڈپریشن کو بیان کیا ہے۔ "دوپہر کے وقت بھی ایسا لگتا ہے کہ پلوامہ ڈھلتے سورج کی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے پلوامہ کے سرکاری ہسپتال سے 10 کلومیٹر آگے اب ہم ایک گاؤں میں موجود ہیں۔ خاموشی سے گرنے والی برف نے پورے گاؤں کو سفید چادر سے ڈھک دیا ہے۔ وسیم شیخ ہمیں مرکزی سڑک سے ایک کلومیٹر دور اپنے گھر لے گئے سارا راستہ دو فٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ملاقات میں 19 سالہ سلیم جالی دار کشمیری پردے کے پاس سر جھکائے بیٹھے ہیں 2016ء میں سلیم دسویں جماعت کی امتحان میں پلوامہ میں احتجاج میں پھنس گئے تھے اور ان کی ایک آنکھ پیلٹ گن کی زد میں آکر ضائع ہو گئی۔دو منٹ تک سر جھکائے بیٹھے سلیم نے اچانک کہا مجھے بھی شوق تھا کچھ بننے کا کرکٹ کھیلنے کا، جم جانے کا، کشتی کا، لیکن اب میری زندگی برباد ہو گئی ہے والدین کب تک میرا خیال رکھیں گے، کون سی لڑکی مجھ سے شادی کر کے اپنی زندگی خراب کرنا چاہے گی؟ میں نابینا ہوں سارا دن درد سے سر پھٹتا رہتا ہے کچھ نہیں دیکھ سکتا نہ مجھے بھوک لگتی ہے نہ پیاس لگتی ہے نہ نیند آتی بس دل گھبراتا رہتا ہے۔یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ حق کی بات کرنے کا سلیقہ اور جرات بعض اوقات اللہ تعالی ان لوگوں کو بھی عطا کر دیتا ہے جو بظاہر اسی قوم کے فرد ہیں جو ظالم ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ہر صورت اور ہر حالت میں حق گوئی پر قائم رہتے ہیں اور حق کی بات کہنے سے نہیں کتراتے۔ کتاب شیبانی فاؤنڈیشن اور منشورات نے مشترکہ طور پر شائع کی ہے۔ایک کالم میں تمام مضامین کا احاطہ نہیں ہو سکتا لیکن یہ کتاب 5اگست 2019 کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی صورتحال کو سمجھنے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔