مشرقوں اور مغربوں کا رب اپنے محبوب کے قلب پر نازل کی گئی کتاب میں ارشاد کر رہا ہے ـ "قسم ہے سورج کی ۔۔ اسکی روشنی کی اور چاند کی جب و ہ اس کا پیچھا کرے ـ"۔ابو صالح کشفی حنفی ایک با کمال شخصیت تھے۔ وہ اپنی کتاب" کو کب دری" میں اس آیت کی عجب تفسیر بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق شمس سے مرادسرکار رسالت مآبﷺ ہیں اور قمر سے مراد وہ اولیاء کرام ہیں جو آقاﷺ کے پردہ کر جانے کے بعد ولایت کا چراغ تھے ـ" اوراس کی روشنی سے مخلوق کی راہنمائی فر ما رہے ہیں۔ جب آقا ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو اولیا ء کرام کے ملفوظات کے مطابق معراج سے واپسی پر اللہ پاک کے ہاں سے وہ ایک خرقہ لے کر آئے۔ اولیا ء کے مطابق یہ خرقہ ولایت تھا ۔ تفصیل پھر سہی۔ یہ خرقہ آقاﷺ نے حضرت علی ؓ کو دیدیا۔اب کسی بھی سلسلے کا کوئی بھی ولی جب ولایت کے سمندر کا حصہ بنتا ہے تو ولایت کی دنیا کے تاجدار سے فیض پاتا ہے۔حضرت داتا گنج بخش (سید علی ہجویری) حسنی حسینی سید تھے۔ آپ نے راہ فقر ولایت کے رازوں کو اپنی شہرہ آفاق تصنیف کشف المجوب میں بیان کیا ہے ۔ حضرت علی ؓ فرمارہے ہیں۔"اللہ نے جاننے والوں سے پہلے یہ عہد لیا کہ تم پہنچائو گے اور پھر نہ جاننے والوں پر فرض کیا کہ تم جاننے سے دریغ نہ کروگے " ۔ سید ہجویر کے مطابق ان کے ایک مرید نے ان سے سوال کیا "تصوف کے راستے کی حقیقت کیا ہے ؟ صوفیا کے کیا مقامات ہیں ؟ ان کے اقوال ، نظریات ،رمزیںاور اشارات کیا ہیں؟ انسانی عقلیں اللہ کی محبت اور حقیقت کی دریافت بارے کیوں حجاب میں ہیں؟ نفس اس سے گریز کیوں کرتا ہے؟ انسانی روح نفس کی پاکیزگی سے اطمینان کیسے پاتی ہے؟ اہل نظر کی محفلوں میں اکثر یہ سوال زیر بحث آتا ہے ، تصوف کیا ہے؟ شریعت کیا ہے؟ دونوں میں کیا ربط ہے ۔ ظاہراور باطن کی دنیا کیا ہے؟ اللہ کی معرفت کیسے حاصل ہو؟ روح کی حقیقت کیا ہے؟ قدیم کیا ہے؟ حادث کیا ہے؟ تصوف کی دنیا میں مختلف اصطلاحات سننے کو ملتی ہیں۔۔ ان کی تعبیر،مطالب ،معنی اور مفہوم کیا ہیں؟کشف المجوب میں سید ہجویر نے ایسے بیان کردیے ہیں کہ ایک طالب حق کے سامنے سے حجابات ہٹادئیے گئے ہیں۔ کشف کے اسرار کھول دیئے گئے ہیں۔ مگر پھر بھی اکثر پڑھنے والے اس بات کو اس طرح نہیں سمجھ پاتے جیسے بتائی گئی ہے۔اس کی اور بھی وجوہات میں مگر ایک وجہ یہ ہے کہ یہ کتا ب اصلاََ فارسی زبان میں ہے۔اس کے بہت سے تراجم موجود ہیں ۔ سبھی دیکھے مگر قلب کے قریب ترمولوی فیروزالدین کا فارسی سے اردو میں ترجمہ ہے ۔ڈاکٹر اظہر صاحب جو قبلہ واصف علی واصف صاحب کے روحانی جانشین ہیںکے مطابق مصر سے شائع ہونے والا کشف المجوب کا عربی ترجمہ بہت لطف انگیز ہے۔ انہی کے مطابق سید ہجویری کی کتاب کے فارسی متن میں معانی اور مفہوم کا ایک جہان چھپا ہوا ہے۔ بلا شبہ بلاغت کے اعتبار سے اردو کا دامن،فارسی اور عربی کے مقابل اتنا وسیع نہیں۔ ڈاکٹر اظہر پیشے کے اعتبار سے طبیب ہیں مگر واصف صاحب کی نظر کا اعجاز ہے کہ ڈاکٹر صاحب بابا جی کے رنگ میں ہی لکھتے ہیں۔ان کی سبھی تصنیفات پڑھنے کا موقع ملا مگر جب ان کا ترجمہ کشف المجوب پڑھا تو پوری رات گزر گئی۔ ترجمے کی سلاست اور سادگی نے حیرت میں مبتلاء کر دیا۔ باباجی واصف صاحب کا کہنا ہے کہ دین کی بات جتنی قدیم ہوگی اتنی ہی مستند اور حقیقت کے قریب ہوگی۔ کشف المجوب کی باطنی واردات کبھی کم نہیں ہوگی۔یہ خوبصورتی ہر اس کلام میں ہوتی ہے جو حواس خمسہ سے حاصل نہیں ہوتا، اس کا منبع اور خزانہ الوہی ذرائع سے وارد ہوتا ہے۔ قرآن میں رب کریم کا ارشاد ہے کہ رب کی شان ہر لمحہ بڑھتی ہے۔ اس لیے وہ جو اللہ کے قرب والے ہوتے ہیں،ان کی بات اور ان کی یاد کی لو کبھی بھی مدھم نہیںپڑتی۔ تمام اولیا ء کرام کا کیا ذکر کروںصرف لاہور میں دفن حضرت علی ہجویری ؒ ہی کی مثال ماننے اور نہ ماننے و الوں کے لیے یکساں حیرت کا سبب ہے۔ سید ہجویر کے کلام کے ایک جملے کا مفہوم یوں ہے کہ نبی اپنی امت سے باطنی جہت میں مخاطب ہوتا ہے۔جہاں سے نبوت اختتام کو پہنچی وہاں سے ولایت کی ابتدا ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اللہ کے بندے ،رب کے مقرب، اولیاء کرام ، مخلوق سے باطنی جہت میں کلام کرتے ہیں۔ان کی بات اور کلام طالب حق کے باطن سے مکالمہ کرتا ہے۔ ان ہی کے مطابق ظاہر کی حد مقرر کی جا سکتی ہے، باطن کی کوئی حد نہیں ۔ ہر باطن در حقیقت باطن درباطن ہوتا ہے۔ ظاہر اور باطن کے سنگم کی ابتداء تو ہے مگر انتہا کوئی نہیں۔ وہ دیباچے میں لکھتے ہیں:باطن ایک ایسا واقعہ ہے جب ایک بار وقوع پذیر ہو جائے تو اس کا زیروبم مسلسل صدائے کن فیکون کی صدا دیتا ہے۔یہ بے حد، ان حد تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتا ہے۔ظاہر میں اس کی صفات ملتی ہیں،باطن میں وہ خود ملتا ہے۔"حدیث ہے ۔ اللہ نے مخلوق کو تاریکی میں تخلیق فرمایا ۔ پھر اپنے نور کا ان پر جلوہ ڈالا۔ جسے یہ نورنصیب ہو گیاوہ ہدایت پا گیا۔ جس نے اس نور کے متعلق خطا کی ۔۔ وہ بھٹک گیا۔ ڈاکٹر اظہر وحید صاحب نے اس کتاب کا فارسی متن پڑھنے اور سب نسخوں کا تقابلی جائزہ لینے میں سات سال لگائے ۔ان کی ترجمہ کردہ" کشف المحجوب" نئی نسل کے لیے اور ان سب کے لیے ہے جو تصوف کو سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں ۔۔چراغ راہ ہے۔تصوف کی ٹرم اور اس کی توجیہات اورتعبیرات اس راہ کے مسافروں کو اکثر گمراہ کر دیتے ہیں۔اس ابہام اور کنفیوژن کو دور کر کے تصوف کو آسان انداز میں سمجھانے کی یہ کاوش ہمیشہ موجود رہنے والی خدمت ہے۔ایسا ترجمہ جو اصل متن کو سمجھ کر ۔۔۔ اور اس کی روح کو متاثر کیے بغیر قارئین تک پہنچایا جائے۔یہ صرف محبت ۔۔۔شوق اور لگن ہی کا پھل ہے۔