اگست کا مہینہ اپنے ساتھ ایک خاص کیفیت لے کے آتا ہے۔ایک جذبہ ہے جو ہماری شریانوں میں دوڑتا ہے کہ میرا وطن اگست کے اس مہینے میں معرض وجود میں آیا تھا۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہر مہینے کا ایک چہرہ ہوتا ہے اور اگست کا چہرہ سرسبز وشاداب ہے۔ اگست کو سبز ہلالی پرچم سے نسبت ہے۔اگست کو ان عظیم ہجرتوں سے نسبت ہے جن ہجرتوں کے بعد یہ وطن معرض وجود میں آیا۔اگست کو ان عظیم قربانیوں کے ساتھ نسبت ہے جن قربانیوں کی بنیاد پر میرے وطن کا وجود اسارا گیا۔ اگست کو تحریک پاکستان سے نسبت ہے۔اگست کو قائد اعظم جیسے بے مثال بے بدل عظیم لیڈر سے نسبت ہے۔اس مہینے کا چہرہ سرسبز ہے، برسات کی بارشیں زمین کے اندر سوئے ہوئے نمو کے جذبوں کو جگاتی ہیں تو بنجر منظروں میں بھی ہر یالی اگنے لگتی ہے۔ اپنے سکول اور کالج کا زمانہ یاد کروں تو کیسے دل پذیر نغموں کی آوازیں میرے اندر گونجنے لگتی ہیں۔کیا وقت تھا ہم پاکستان کے ہونے سے بھرے رہتے تھے ،ملی نغموں کے مقابلے ہوتے 14 اگست بھرپور انداز میں منایا جاتا، ایک ہی سرکاری ٹی وی تھا اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پی ٹی وی پر لہو میں رس گھولنے والی دھنوں اور حب الوطنی کے سوتے جگا دینے والے بے مثال مصرعوں کے آہنگ سے ترتیب پائے ہوئے ملی نغمے چلا کرتے اور میں جو ایک بہت ہی جذباتی روح تھی، وطن کی محبت سے لبریز یہ ترانے میرے اندر ایک عجیب دھمال پیدا کرتے۔ دل میں ایک ارادہ اور ایک خواب آ نکھیں کھولتا اور میرے روح کو جکڑتا کے اس وطن کے لیے کچھ کرنا ہے کبھی اس وقت یہ خیال نہیں آیا تھ وطن نے ہمیں کیا دیا ،بحران اور مسائل اس وقت بھی کم نہ تھے۔آج جب میں یونیورسٹی کالج کے طالب علموں کو دیکھتی ہوں وہ مجھے پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات سے بیزار دکھائی دیتے ہیں ان کے اندر ایک مایوسی کی کیفیت نظر آ تی ہے۔ہر دوسرا نوجوان پاکستان چھوڑ کر باہر جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔یہ نوجوان یونیورسٹی سے اعلی تعلیم یافتہ ہوں یا پھر واجبی تعلیم کے مالک اسی ہنر کے حامل ہوں۔اسی فیصد مسلمان پاکستان سے باہر اپنا مستقبل بہتر بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔مسائل تو ہر دور میں رہے لیکن جس انداز میں نوجوان اس وقت پاکستان کی صورتحال سے مایوس ہیں ایسا پہلے نہیں تھا۔ تمام تر مسائل کے باوجود اگر آپ کے اندر اپنے وطن اپنے دھرتی سے محبت باقی رہے تو میرے خیال ہمارا نقصان نہیں ہوا کیونکہ محبت کا وجود سلامت رہے تو جذبہ تعمیر زندہ رہتا ہے۔پھر ہم میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی۔تمام تر مسائل کے اس دلدل میں اگر کسی چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے تو وہ جذبہ تعمیر کی ہے، وہ امکانات دیکھنے کی صلاحیت ہے، وہ اعتماد اور یقین کا جذبہ ہے اور اسی کے زیر اثر وطن سے جذباتی وابستگی کم ہونے لگی ہے۔ لوگ سیاست دانوں اور دوسرے اہل اختیار کی بداعمالیوں کی وجہ سے اپنے ملک کو کوسنے لگے ہیں۔پاکستانیو!کیوں نہ اس یوم آزادی پر آ پ سے سوال کریں۔یہ دھرتی جو ہمیں امن دیتی ہے ،ہمیں سنبھالے رکھتی ہے ہم نے اس کے ساتھ کبھی خالص پیار کیا ہے۔ کبھی اس احسان کا خالص ترین بدلہ ہم نے اس دھرتی کو دیا ہے۔ کیا یہ ہم ہی نہیں جو جھوٹ بولتے ہیں ۔ معاملا ت میں بدیانتی سے کام لیتے ہیں۔ خریدو فروخت کرتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں۔ ملاوٹ شدہ اشیا خوردونوش فروخت کرتے ہیں۔ دودھ میں یوریا کھاد ملاتے ہیں اور یہ دودھ قوم کے بچوں کو پلاتے ہیں۔ اپنے گھروں کا کوڑا محلے کی گلیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ ہم ہی تو ہیں جو اپنے دن کا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر سیاسی بحثوں میں ضائع کرتے ہیں۔یہ ہم ہی تو ہیں جو دن چڑھے اٹھتے ہیں برکت والا وقت گزار کر اپنے کاروبار کا آغاز کرتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں صبح سویرے کاروبار کا آغاز ہوتا ہے۔ مارکیٹیں کھل جاتی ہیں لیکن ہم اپنی غربت اور تمام تر مسائل کے باوجود اپنے ساتھ خود کش حملوں والا رویہ روا رکھتے ہیں۔کون ہمیں روکتا ہے کہ ہم صبح کے برکت والے وقت کو استعمال نہ کریں۔کیا یہ ہمارے اپنے فیصلے نہیں ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں بے برکتی کا باعث بننے والی عادتوں کو اپناتے ہیں۔کیا نمود ونمائش کی عادات ہم جیسے غریب اور مسائل میں دھنسی ہوئی قوموں کو سجتی ہیں۔وقت کی قدر نہ کرنے والے بھی ہم لوگ ہیں ۔تاخیر سے پہنچنے کا کلچر ہم پاکستانیوں نے بڑی محنت سے مل جل کر پروان چڑھایا ہے اب حالت یہ ہے کہ ہم وقت کا قتل عام کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ہماری یہ بد سلوکی ہمیں تباہ و برباد کر رہی ہے۔کیا ہم خود اپنی بدبختی کی داستان تحریر کرنے والے بد قسمت لوگ نہیں؟ سو میرے پاکستانیو !پہلے عملی طور پر وطن کو اپنا خالص پیار تو دو پھر پوچھنا کہ اس وطن نے ہمیں کیا دیا۔وطن کو بہتر کرنا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بہتر کرنا ہوگا۔آخری بات یہ کہ، ہزار مسائل کی آندھیاں چلیں مگر وطن سے محبت کا جو دیا پہلے دن سے دل میں روشن تھا وہ آ ج بھی ہے۔بے مثال شاعر سلیم کوثر کے ، خوشبو دیتے اشعار میرے لہو میں رواں اس محبت کو الفاظ دے رہے ہیں : خواب اس مٹی کے تھے تعبیر اس مٹی کی ہے اس خرابے میں میری جاگیر اس مٹی کی ہے میرے بچپن کے کھلونے بھی اسی مٹی کے تھے اب جوانی میں میری تصویر اس مٹی کی ہے اس کی خوشبو سے نکلتا ہی نہیں میرا وجود جیسے میرے پاؤں میں زنجیر اس مٹی کی ہے اپنے ہونے کی سند باہر سے منگواتے ہیں جو ان کے بارے میں بھی ایک تحریر اس مٹی کی ہے سوال آخر میں وہی ہے کہ کبھی آپ نے اپنے وطن کو خالص پیار دیا ہے؟