عمار کو شہید ہوئے کچھ دن گزرے تھے ‘ ہم ان کے گھر حاضر ہوئے ۔ سراپا استقامت ان کی ماں نے کہا ‘ ’’ عمار کارگل کے محاذ پر تھا تو میں نے خواب میں اسے دیکھا۔ ہم اپنے گائوں میں ہیں اور آسمان سے لا تعداد لوگ پیرا شوٹ کے ذریعے اتر رہے ہیں ‘ ان میں عمار بھی ہے ۔ وہ بریگیڈیئر طارق محمود ( ٹی ایم ) شہید کے انداز میں پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے نیچے آ رہا ہے ۔ زمین پر اترتے ہی وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ میں پریشان ہو جاتی ہوں ۔ پھر اچانک عقب سے آ کر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتا اور کہتا ہے ۔ ’’ امی ‘‘ ’’ میں نے جب عمار کو پیرا شوٹ جمپ میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے ہوئے دیکھا تو یقین ہو گیا کہ میرا جگر گوشہ ضرور کوئی عظمت لے کر آسمانوں سے اترے گا ۔‘‘ کوئی ماں اس سے بڑی عظمت و سعادت کا تصور بھی کر سکتی ہے ؟ پچیس برس کے ایک نوجوان کی ماں کے لیے یہ فخر ہی دو جہاں کی دولت سے بڑھ کر ہے کہ اس کا کم عمربیٹا جس کی ابھی ابھی منگنی ہوئی تھی اس طرح اس کے دودھ کی لاج رکھتا اور تربیت کا حق ادا کرتا ہے ۔ اپنے خاندان کو ایسی عظیم سعادت کا تحفہ دے کر خود ابدی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔ کیپٹن عمار ۲۵ مارچ ۱۹۷۵ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد میجر محبوب حسین نہایت دیندار اور مزاجاً حریت پسند شخص تھے۔ اسلام کے شیدائی ‘ بلکہ صحیح معنوں میں دیوانے ۔ بیٹا دین کی محبت میں باپ پر بازی لے گیا۔ دیوانگی کی حد یہ ہے کہ اپنی آرزو پر اس محاذ پر جہاد کرنے پہنچ گیا جہاں بڑے بڑے بہادروں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے اور فرزانگی کی انتہا یہ ہے کہ ابدی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اورکسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی ۔ عمار شروع ہی سے حریت پسند بچہ تھا۔میجر محبوب سے میرا بھائیوں جیسا تعلق تھا۔وہ ریٹائر منٹ کے بعد جنرل حمید گل کے ہو گئے۔جنرل صاحب انہیں دین کا مجنوں کہتے تھے۔ہم دو چار جمع ہو کر میجر صاحب کو تنگ کرتے وہ کبھی کھلکھلا کر نہیں ہنستے تھے،ہماری کوشش ہوتی انہیں گد گدیاں کریں لیکن وہ اپنی متانت اور سنجیدگی نہ چھوڑتے ،بس مسکرا کر نکل جاتے۔ عمار ان کے پرانے ویسپا سکوٹر پر بیٹھ کر آجاتے۔اپنے باپ کی طرح سنجیدہ لیکن مسکراتابچہ ۔دیکھتے ہی دیکھتے جوان ہو گیا اور ایک روز میجر محبوب برفی لے کر آئے’’ عمار پاس آئوٹ ہو گیا ہے‘‘پھر کبھی کبھی عمار کا ذکر ہوتا تو میجر صاحب کہتے’’ وہ بچپن ہی میں ولی لگتا تھا،مجھے اب بھی ولی لگتا ہے ۔‘‘عمار ذہانت و فطانت میں ہمیشہ اپنے طالب علم ساتھیوں میں نمایاں رہے اور غیرت و حمیت کا جذبہ ایسا محکم تھا کہ چھ سات برس کی عمر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’’ جنگ جنگ ‘‘ کھیلتا اور سب مل کر’’فتح ‘‘پر خوشی مناتے ۔ عمار کے ماموں طارق کہتے ہیں کہ سات سال کی عمر میں ایک بار جہازی سائز کے کاغذ پر جنگ کا نقشہ بنایا ۔ کاغذ کے درمیان لکیر کھینچ کر ایک طرف پاکستان کی فوج ‘ ٹینک اور گاڑیاں بنائیں اور دوسری جانب ہندوستان کے فوجیوں اور اسلحے کو دکھایا تو ان کی صلاحیتوں کا یقین تھا‘ اس نے وہ نقشہ ٹیچر کو دکھا یا لیکن ان کے ٹیچر کو یقین نہیں آتاتھا کہ ایک معصوم بچہ جنگ کا ایسا پلان کر سکتا ہے ۔ اس نے کیئرئر کا سارا سفر تیزی رفتاری سے طے کیا ۔ وہ ان بچوں میں سے تھے جو اپنا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے ۔ ۱۹۸۷ء میں ملٹری کالج جہلم میں داخلہ ملا ۔ پانچ برس تک یہاں تعلیم پانے کے بعد ۱۹۹۲ء میں پی ایم اے جائن کیا ۔ ۹۴ء میں پاس آئوٹ ہونے کے بعد ۱۳ ۱یف ایف کا انتخاب کیا لیکن اضطراب کسی مقام پر رکنے نہیں دیتا تھا۔ ایس ایس جی کی تربیت حاصل کرنے پر کمربستہ ہوئے اور اکتوبر۱۹۹۷ء میں سپیشل سروسز گروپ کا کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد یلدرم بٹالین میں شامل ہوئے ۔ یہاں بھی ان کے جنون کی شورش نہ گئی ‘ اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ایک کورس کے بعد دوسرا کورس کرتے رہے ۔ وہ جب چھٹی پر آتے ،اباجی کے پھٹپھٹے ویسپا پر بیٹھ کر ملنے آتے۔ان کا ایک ہی شوق تھا،پڑھنے کے لیے ڈھیر ساری کتابیں مل جائیں۔ میں انہیں لائبریری میں بھیج دیتا،جو پسند آتی لے لیتے،جاتے ہوئے کہتے’’انکل ان کے پیسے‘‘؟ اور اسے جواب بھی معلوم ہوتا’’ آپ جائیں ہم میجر صاحب سے لے لیں گے‘‘اور ہمیں اگلا فقرہ بھی معلوم تھا وہ ہمیشہ کہا’’ انکل! تھنک یو ‘‘ معرکہ کارگل سے قبل وہ انفنٹری کالج کوئٹہ کے لیے منتخب ہو گئے تھے‘ لیکن کارگل میں بھارت سے جنگ چھڑ گئی تو وہ اس میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہو گئے ۔ کارگل کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو رضا کارانہ پیش کیا تھا۔ اس معرکے پر جانے کے لیے اپنے گھروالوں کو بھی خبر نہ ہونے دی۔ کیپٹن شیر خان شہید عمار کے کورس میٹ تھے ۔ کارگل میں بھی ساتھ ساتھ تھے۔ دونوں نے ایک ہی روز شہادت پائی ۔ کیپٹن عمار کس طرح شہید ہوئے ؟ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ دشمن جب ٹائیگر ہلز پر پاک فوج کی سپلائی کاٹنے میں مصروف تھا اس سے اگلی پوسٹ پر پاک فوج کے ۲۳ افراد پھنس گئے تھے۔ وہ بہادری سے لڑتے رہے لیکن ان میں سے ۱۹ افراد شدید زخمی ہو چکے تھے۔ ان کو دشمن کے گھیرے سے نکالنا ضروری تھا ۔ کیپٹن عمار ‘ کیپٹن کرنل شیر خان اور ان کے چھ ساتھی دشمن پر حملہ آور ہوئے ۔ ان کو اپنے زخمی بھائیوں تک پہنچنا اور انہیں وہاں سے نکال کر لانا تھا ۔ یہ آسان کام نہ تھا مگر انہوں نے ایک بار پھر رضاکارانہ طور پر یہ ناممکن مشن پورا کرنے کی کوشش کی اور اس معرکے میں شہید ہو گئے۔ اس رات کے پچھلے پہر انہوں نے دشمن کی تمام رکاوٹوں کو عبور کر لیا اور راستے میں آنے والے بزدل بھارتی فوجیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا تھا۔ وہ مٹھی بھر تھے اور دشمن سینکڑوں کی تعدادمیں تھا مگر صبح تک وہ دشمن کی لاشوں پر سے گزرتے اور آگے بڑھتے رہے ۔ لیکن پھر روشنی پھیلنے لگی ۔ سورج طلوع ہو گیا ۔ وہ بھارتی فوج کی آنکھوں کے سامنے آ چکے تھے۔ اپنی فوج کے باقی حصے سے وہ بہت دور تھے ‘ مگر دشمن فوج نے انہیں سرنڈر کرنے کی پیش کش کی ۔ بھارتی فوج کے لیے بھی یہ نادر موقع تھا چشم فلک نے ایسا منظر شاید ہی کبھی دیکھا ہوگا کہ چاروں طر ف سے گھرے ہوئے چند فوجیوں نے ہتھیار ڈالنے اور بزدل دشمن کا جنگی قیدی بننے سے صاف انکار کر دیا اور ’’ شہادت شہادت ‘‘ پکار کر آخر تک جنگ جاری رکھی ۔ آخری لمحے تک دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچی رہی اور پھر سب بہادروں نے باری باری اپنی جانیں راہ خدا میں لٹا دیں ۔ کیپٹن عمار پہاڑ کی کس گھاٹی پر پرچم جاں لہرانے میں کامیاب ہوئے اور کہاں پر ان کا لہو گرا ۔ ان کے کچھ ساتھیوں کے جسد خاکی واپس آ گئے لیکن عمار اپنے کچھ دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ کارگل کے ان دیکھے ان جانے پہاڑی گوشے میں ایسے محو خواب ہوئے کہ کسی کو ان کا سراغ بھی نہ مل سکا ۔