کوئی دن نہیں جاتا کہ وطن عزیز میں ’’نیا چاند‘‘ نہ چڑھے بلکہ ایک دن میں کئی کئی چاند چڑھا دیئے جاتے ہیں ، سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں جن کے لئے روز ہی وہ چاند چڑھا رہے ہوتے ہیں، اب تو اتنے چاند چڑھے ہوتے ہیں کہ لاہور میں پتنگیں کیا چڑھی ہوتی ہوں گی۔ دیکھنے والے تھک اور سننے والے بھی بیزار ہوچکے ہیں لیکن ان چاند بازوں کسی کو احساس ہی نہیںکہ وطن عزیزکے گرد کس طرح سے گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ،خزانہ خالی ہے ، قرض اور سود سے مشکیں کسی ہوئی ہیں ،توانائی کا بحران روزمرہ کا حصہ بن چکا ہے، بجلی گھنٹوں غائب اور گیس کی قلت ہے، اس کے باوجود گیس بجلی کے بلوں میں تاریخی اضافہ کیا جاچکا ہے ہر پندرہ دن بعد نیپرا کے پاس بجلی کے نرخ بڑھانے کی درخواست پہنچ جاتی ہے سماعت کے نام پراک محفل سجتی ہے بجلی کمپنیوں کے نمائندگان کو ہلکی پھلکی موسیقی سناکر نیوز چینل کو ’’عوام پر بھر بجلی گرادی گئی ‘‘ کی سدابہار بریکنگ دے دی جاتی ہے ۔عوام اس وقت بدترین مہنگائی جھیل رہے ہیں صنعتکار پریشان ہیں کہ وہ ان نرخوں پر بجلی گیس لے کر کیا بنائیں کیا بیچیں اور کیا کمائیں ۔ دگرگوں معاشی صورتحال ایک طرف اور دوسری جانب کے پی کے اور بلوچستان میں سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے تمام توانائیاں صرف کر رکھی ہیں ، دشمنوں کی کوشش ہے کہ سی پیک ’’پیک‘‘ ہوجائے ، شانگلہ میں چینی مہمان انجینئروں کو نشانہ بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ چینیوں کے لئے پاکستان نو گوایریا بنا دیا جائے دوست ملک کے شہری پاکستان آنے کا سوچنے سے بھی گریز کریں اور پاکستان میں چین کے تعاون سے جاری ترقیاتی منصوبے ٹھپ نہیں بھی ہوتے تو ان کی تکمیل کی رفتار سست کردی جائے تاکہ پاکستان کے معاشی مسائل کا وزن اور حجم خوفناک انداز سے بڑھتا رہے وطن دشمن قوتیں اپنے اس ہدف کے لئے بلوچستان کے باغیوں اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں موجود تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کی صفوں میں شامل پاکستان مخالف گروہوں پر صدقے واری جارہی ہیں ، ان کے پاس جدید امریکی اسلحہ ،اہداف اور حملوں کی تکنیک سے ان کا پلان واضح ہے جسے ناکام بنانے کے لئے پاک فوج کے کڑیل جوان اور افسر اپنی جانوں پر کھیل رہے ہیں جام شہادت نوش کررہے ہیں سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں آفرین ہیں ان سفید بالوں والوں پر جو اپنے بڑھاپے کے سہاروں ،کڑیل جوانوں کی لہو میں سرخ وردیاں کپکپاتے لبوں کے ساتھ وصول کرتے ہیں اور ہم میں ایسے بھی بدبخت ہیں جو سوشل میڈیا پر ان شہیدوں کا تمسخر اڑاتے ملتے ہیں ان مسخروں کا اور دہشت گردوں کے اہداف مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مقصد ایک ہی ہے۔ گمان تھا کہ الیکشن کے بعد سیاسی اضطراب کم ہوگا اور نئی حکومت یکسو ہو کر پاکستان کے معاشی اور امن و امان کے چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہو جائے گی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک ساتھ بیٹھنے کا مشکل فیصلہ کیا،شہباز شریف،بڑے بھائی کی سپورٹ سے وزیر اعظم ہاؤس کے دوبارہ مکین بھی ہو گئے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس ’’اتحاد ائیرلائن ‘‘ کے طیارے نے فضا میں اچھالا نہیں لیا ،اقتصادی میدان میں پیش رفت سیاسی استحکام سے مشروط ہے لیکن سیاسی استحکام کہاں سے آئے جب جارحانہ مزاج سیاست دانوں نے منہ میں شورے کا تیزاب بھر رکھا ہوکہ جہاں موقع ملے مخالفین پر پچکاری ماردی جائے ۔افسوس کہ اس سیاسی عدم استحکام میں اپوزیشن کی بڑی جماعت سنی اتحاد کونسل یا پی ٹی آئی مرکزی کرداراداکر رہی ہے مانا کہ پارٹی پر کڑا وقت ہے، جو اس نے اپنی پالیسیوں سے مزید مشکل بنادیا ہے لیکن یہی تو قیادت کا امتحان ہوتا ہے ۔ پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ وہ امتحان میں ہے تو سارے ہی کمرہ امتحان میں رہیں ہم دکھی ہیں توکوئی سکھی نہ رہے،اس رویئے کی وجہ سے ہی سیاست میں وہ بھونچال آیا ہواہے، جو جانے کا نام نہیں لیتا،عجیب قسم کے غیر ذمہ دارآنہ بیانات داغے جا رہے ہیں،کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کو شہد میں زہر دیا جارہا ہے ان کی جان کو خطرہ ہے اللہ تعالیٰ بشری بی بی سمیت عمران خان صاحب کو لمبی حیاتی دے وہ بخیر و عافیت ہیں،عمران ریاض کی زبان کاٹ دینے سے لے کرقیدی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے بھیانک الزام سمیت اس قسم کی شرلیوںکی فہرست مختصر نہیں، خاصی طویل ہے اب اسلام آبا دہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کے حوالے سے اک نیا چاند چڑھا ہوا ہے، جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس پر پاکستان بار نے اعتماد اور پی ٹی آئی نے اضطراب کا اظہار کیا اب تو خیر تصدق جیلانی صاحب بھی معذرت اور چیف جسٹس صاحب ازخود نوٹس لے چکے ہیں، اب عدالتیں لگیں گی سماعتیں ہوں گی اور پھر معاملہ فل کورٹ کی طرف جائے گا بہتر نہ تھا کہ کمیشن بن جاتا تحقیق ہوتی اور الزامات کاکھرا مل جاتا ۔ ایک طرف الزامات ،گندی سیاست ،معاشی ابتری ہے اور دوسری جانب دہشت گردی ہے پھراس بھونچال میں توقع کی جائے کہ کوئی یہاں آکر ڈالروں میں سرمایہ کاری کرے گا زرمبادلہ بڑھے گا تو اسے دیوانے کی بڑ کے سوا کیا کہاجاسکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم وقت کی وارننگ نہیں سن رہے سامنے کی بات ہے اگر کسی سڑک پرگڑھے ہوں تو آپ اپنی گاڑی اور وقت بچانے کے لئے کبھی ادھر کارخ نہ کریں گے تو پھر جس ملک میںسیاست دان چونچیں لڑائے بیٹھے ہوں، خبردار کریں کہ پاکستان کو قرض نہ دینا جہاںحکومت بنی نہیں کہ اسکے خلاف تحریک کی تیاریاں شروع ہوجائیں اس پر مستزاد امن و امان کی بھیانک صورتحا ل ۔۔۔ تو گویا شرافت حسین کی غزل نہ ہوگئی الجھنیں درد آبلہ پائی زندگی کوہسار کی صورت کون آئے گااس خرابے میں رنگ خوشبو بہار کی صورت