راقم نے اپنے کالم’’کیا لاہور سیف سٹی ہے‘‘میں عرض کیا تھا کہ لاہور میںجس تیزی سے کرائم بڑھ رہا ہے‘ خدا نہ کرے کہ اس خوبصورت شہر کو بھی کراچی جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جائے ۔پنجاب پولیس کی کارکردگی پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا مگر اب پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کی انتظامیہ کو واضح کرنا چاہیے۔اس کالم کے بعد پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ توصیف گوندل نے ادارے کے مسائل و مقاصد سے آگاہ کرنے اورڈی آئی جی کامران خان سے ملاقات کے لیے دفتر میں مدعو کیا۔یہ ملاقات کئی حوالوں سے اہم رہی۔ پنجاب سیف سٹی کا قیام کا مقصد لاہور میںامن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا اور جرائم پیشہ افراد کو یہ پیغام دینا تھا کہ ’کوئی شہر کو دیکھ رہا ہے‘۔آغاز میں اس ادارے کی کارکردگی نے جرائم کی روک تھام میں قابلِ قدر کردار ادا کیا مگر چینی کمپنی نے جیسے ہی کنٹریکٹ میں تبدیلی کی بات کی‘اس ادارے کا سسٹم بیٹھ گیا۔اکتوبر 2016ء میں پنجاب حکومت نے چینی کمپنی ’ہواوے‘سے پانچ سال کا کنٹریکٹ کیا تھا‘کنٹریکٹ کے مطابق پاکستان کے پاس اس جدید مشینری کو چلانے کے لیے اتنے اہل انجینئرز نہیں ہیں لہٰذا جب تک یہاں ایک کامیاب ٹیم تیار نہیں ہو جاتی‘یہ سسٹم چینی کمپنی ہی چلائے گی‘یہ مدت پانچ برس رکھی گئی تھی۔جب یہ کنٹریکٹ ہوا تھا‘اس وقت ڈالر کی قیمت ایک سو چار روپے تھی مگر 2018ء میں جب اس ادارے نے کام شروع کیا‘ڈالر کی قیمت ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی‘یہاں چینی کمپنی نے کنٹریکٹ میں تبدیلی کی بات کی جہاں سے معاملہ بگڑ گیا۔پنجاب حکومت اس بات پر بضد تھی کہ کنٹریکٹ میں کسی صورت تبدیلی نہیں ہو گی جب کہ چینی افسران کنٹریکٹ اوپن کرنا چاہتے تھے تاکہ ڈالر کے اتار چڑھائو کے ساتھ معاملات تبدیلی کیے جا سکیں۔پنجاب حکومت اور چینی کمپنی کے معاملات مزید خراب ہو گئے اور سیف سٹی اتھارٹی کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ‘ آج صورت حال یہ ہے کہ سیف سٹی اتھارٹی کے تیس فیصد کیمرے بند پڑے ہیں‘خراب کیمروں کو ٹھیک کرنے کا کام سالوں سے رکا ہوا ہے‘کیمروں کی صفائی تک کا نظام متاثر ہے ‘ پنجاب حکومت نے مسلسل دو سال کے ڈائیلاگ کے بعد گزشتہ ہفتے چینی کمپنی کو قائل کر لیا ہے کہ ان کی ڈیمانڈز غلط تھیں اور یوں معاملہ سلجھتا دکھائی دے رہا ہے۔پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ چینی انجینئرز کے اپنے ملک واپس جانے کے بعد بھی اس ادارے نے کام نہیں روکا‘اِنھوں نے اپنے طور پر پرائیوٹ انجینئرز اور پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کیا اور پچھلے دو سال سے یہ اس کسی نہ کسی طرح سسٹم کو چلا رہے ہیں‘ان کے پاس ایکسپرٹ موجود نہیں تھے مگر پھر بھی ادارے کی انتظامیہ نے سسٹم کو’ مکمل بیٹھنے ‘سے بچایا اور جرائم کی روک تھام میں اپنا کلیدی کردار اداکیا۔ جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے یہ ادارہ گزشتہ تین سالوں میں بارہ ہزار سے زائد فوٹیج عدالت میں بطور ثبوت پیش کر چکا‘سترہ ہزار سے زائد فوٹیج پنجاب پولیس کو بھیج چکا‘روزانہ ستر سے اسی ہزار کالز لے رہا ہے۔یہ ادارہ ریکارڈڈ فوٹیج ایک ماہ تک اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے اور اگر کوئی کیس عدالت میں چل رہا ہو تو سات سے دس سال تک ریکاڈڈ ڈیٹا ان کے پاس موجود رہتا ہے۔اس ادارے نے درجنوں اہم ترین مجرم پنجاب پولیس کے پہنچنے سے بھی پہلے کیمروں کی مدد سے پکڑے ۔ میرے اس سوال کے جواب میں کہ پنجاب پولیس اسی فیصد کیسز میں یہ کہ کر مدعی کو خاموش کروا دیتی ہے کہ ’سیف سٹی کے کیمرے ہمیشہ خراب ہوتے ہیں‘ایسا کیوں ہے؟جواب میںافسران کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس سیف سٹی کی فوٹیج کے معاملے میں کا سستی کا شکار رہی‘یہ چاہتی ہے کہ کیمرے ان کو مجرموں کے گھر تک چھوڑ کر آئیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا‘کیمرہ آپ کو دس سے بیس فیصد اشارہ دیتا ہے‘باقی کام پنجاب پولیس کا ہوتا ہے۔یہاں معاملہ یہ ہے کہ پنجاب پولیس کیمرہ آن کرتی ہے‘انھیں مجرم کی واضح شکل یا گاڑی‘موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ نظر نہیں آتی تو یہ کہتے ہیں کچھ نہیں اور یوں کیس دبا دیا جاتا ہے۔اس کی واضح مثال ڈپٹی کمشنر سلمان بٹ پر قاتلانہ حملے کا واقعہ ہے۔دسمبر 2021ء میں ڈی سی سلمان بٹ پر فائرنگ ہوئی‘پولیس نے ابتدائی فوٹیج دیکھی اور جلد بازی میں یہ رپورٹ تیارکر دی گئی کہ کیمروں میں کچھ بھی نظر نہیں آیا لہٰذا ۔۔۔۔‘سیف سٹی اتھارٹی نے اس واقعے کو اپنے لیے چیلنج سمجھا اور ذاتی دل چسپی سے سات دن بعد مجرموں کا سراغ لگا لیا‘یہی کیس پنجاب پولیس یہ کہہ کر نمٹا چکی تھی کہ مجرموں کی شناخت نہیں ہو سکی۔ایسے درجنوں واقعات مجھے سیف سٹی کے ڈائریکٹر توصیف گوندل نے سنائے اور میں واقعی حیران ہوں کہ پنجاب پولیس اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی اپنا رویہ کیوں نہیں تبدیل کر سکی؟اس محکمے کا کام قانون کی بالادستی اور جرائم پیشہ افراد کے گھرد گھیرا تنگ کرنا ہے مگر اس ادارے کی کاکردگی ہمیشہ تنقید کی ضد میں رہی۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ حکومت پنجاب نے سیف سٹی پراجیکٹ سیالکوٹ‘ شیخوپورہ‘ ننکانہ صاحب اور لاہور کے اہم ترین داخلی راستے جی ٹی روڈ تک پھیلانے کی منظوری دے دی ہے‘سیالکوٹ چونکہ انڈسٹریل ہب ہے‘ننکانہ صاحب سکھ یاتریوں کی عقیدت گاہ اور شیخوپورہ لاہور کا اہم ہمسایہ شہر ہے۔اس ادارے کو اگر فنڈ کیا جائے تو اس اہم ترین ادارے کو پورے پنجاب اور ملک تک پھیلایا جا سکتا ہے اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے مگر صد حیف یہ ادارہ بھی سیاسی عروج و زوال کا شکار ہوتا رہا‘حکومتیں آتی جاتی رہیں‘ فنڈنگ کے معاملہ میں حکومتوں اور بیوروکریسی کے رویے نے ہمیشہ مایوس کیا۔اگر حکومت نوٹیفکیشن کرتی تھی تو بیوروکریسی روک لیتی تھی اور اگر بیوروکریسی منظوری دیتی تو فائلیں مہینوں مختلف دفاتر کا چکر کاٹتی رہتیں اور یوں آٹھ ہزار میں سے صرف چار سے پانچ ہزار کیمرے ورکنگ حالت میں ہیں‘ایسے میں مجرموں کو کیسے یقین دلایا جائے کہ کوئی شہر کو دیکھ رہا ہے۔