کیا علم دیں تمہیں سایہ اوڑھنے والو۔۔ٹوٹا ہے کہاں پیڑ کہاں شاخ جلی ہے۔مسجدِ نبویؐ کا منبر ہے اور آقائے دو جہاں ارشاد فرما رہے ہیں"اے مومنو۔۔کیا میں تمہارے نفسوں سے بہتر نہیں ہوں"؟ سب نے جواب دیا"آپؐ ہر طرح سے ہم سے اولیٰ تر ہیں"۔پھر آقاؐ کا ارشاد ہوتا ہے"جس کا میں مولا ہوں،اس کے علی بھی مولا ہیں۔حضرت علیؑ کے اس دنیا میں تشریف لانے کامنظر بڑا حیرت انگیز ہے۔آپ کی والدہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں۔ان کے پیٹ میں آپ تھے۔ولادت کا وقت آن پہنچا اور کعبہ کی دیوار شق ہو گئی ۔غیب سے آوازآئی اندر آ جائو۔بی بی اللہ کے گھر میں داخل ہو گئیں اور یوں حضرت علیؑ مولودِ کعبہ بن گئے۔آپ کی پیدائش کے بعد آپ کی والدہ پریشان تھیں کہ نومولود آنکھیں کیوں نہیں کھولتا۔اُدھر سرکارِ رسالتؐ کو خبر ہوئی۔آپؐ تشریف لائے۔حضرت علیؑ کو گود میں اٹھایا اور آپ نے آنکھیں کھول دیں۔آقا ؐنے اپنی زبان آپ کے منہ میں ڈال دی۔آقاؐ کا لعاب دہن حضرت علیؑ کی دنیا روشن کر گیا۔آپ کا نام بھی آقاؐ نے رکھا۔یہی وجہ تھی کہ حضرت علیؑ منبر پر کھڑے ہو کر اکثر کہا کرتے سلونی سلونی۔پوچھ لو پوچھ لو مجھ سے جو پوچھناہے،اس سے قبل کہ میں تم میں نہ رہوں کہ خُدا کی قسم میں آسمانوں کے راستے زمینوں سے زیادہ جانتا ہوں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ علم کہاں سے عطا ہوا تو ٓپ نے کہا"آقا ؐ کے لعاب دہن کی برکت سے اسرار کے باب مجھ پر کھل گئے" جنگِ خیبر کا معرکہ ہے۔یہودیوں کا قلعہ سر نہیں ہو رہا۔دو سینئر صحابی اپنا اپنا لشکر لے کر جاتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے۔مرحب یہودیوں کا مایہ ناز جنگجو تھا۔اُس کی بڑی دھاک تھی۔آقاؐ نے ارشاد فرمایا"کل میں عَلم ایسے مرد کو دوں گا جو بار بار حملے کرنے والا(کرار)ہو گا اور غیرِ فرار ہو گا"۔حضرت علیؑ کو لشکر کا عَلم دے کر مرحب کے مقابلے پر بھیجا گیا۔باقی سب تاریخ ہے۔جنگِ خندق میں جب ایک جرّی پہلوان خندق پھلانگ کر اندر آ گیا اور آقا ؐکے خیمے کے آگے اس نے اپنا نیزہ گاڑ دیا تو یہ انتہا درجے کی گستاخی تھی۔آقاؐ نے سارے مسلمان لشکر کی طرف نگاہ کی۔مگر عمرو بن عبدِ وُد سے سب ڈرتے تھے اس لیے۔حضرت علیؑ بالکل نوجوان تھے اور مقابل بہت طاقتور اور تجربہ کار۔جب آقاؐ نے حضرت علی ؑکو اس کے مقابلے پر لڑنے کی اجازت دی تو فرمایا"آج کلِ ایمان،کلِ کفر کے مقابل ہے"۔جب حضرت علیؑ نے دشمن پرفتح پا لی تو آقا ؐ کا ارشاد سمجھنے والا ہے۔"علی کی آج کی یہ ضرب ثقلین کی ہزاروںسال کی عبادت سے افضل ہے "۔اس ارشادکے اندر بے شمار فضائل ہیں۔عبد اللہ ابنِ مسعود کے مطابق ایک بار نبی پاکؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ علی کے حق میں کیا فرماتے ہیں؟ارشاد ہوا"حکمت کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،نو حصے علی کو عطا ہوئے ہیں۔ایک حصہ کل اہلِ جہاں پر تقسیم ہوا ہے"۔ آقاؐ نے فرمایا ہے"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔جو شخص علم کا طالب ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شہر کے دروازے سے آئے"۔پھر یہ بھی فرمایا کہ جو چاہے کہ دیکھے آدمؑ کو اس کے علم میں،نوح ؑکو اس کے فہم میں،یحیٰیؑ کو اس کے زُہد میں اور موسی ؑ کا اس کی ہیبت میںاسے چاہیے کہ وہ علی بن ابی طالب کو دیکھ لے۔حضرت ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ سرکارؐ نے فرمایا کہ علی کو دیکھنا عبادت ہے،علی کا ذکر بھی عبادت ہے اور روزِ محشر کوئی شخص پُلِ صراط سے نہیں گزرے گا جب تک اس کے ہاتھ میں علی کا پروانہ نہ ہو۔ حضرت عمار یاسرؓ کے مطابق میں اور حضرت علیؑ کھجور کے ایک درخت کے نیچے لیٹے تھے۔ہمارے کپڑے مٹی سے گرد آلود تھے۔آقاؐ وہاں آ گئے اور کہنے لگے"اے ابو تراب اٹھ(مٹی کے باپ)"۔پھر کہنے لگے"اے بھائی میں تجھ کو اس شخص سے خبردار کر دوں جو سب آدمیوں سے زیادہ بدبخت اور شکی ہے"۔حضرت علیؑ نے کہا"فرمائیے"۔آقاؐ نے کہا "دو اشخاص ہیں۔ایک وہ جس نے صالح کی اونٹنی کو ذبح کیا اور دوسرا وہ جو تیری داڑھی کو خون سے رنگین کرے گا"۔سرکارؐ یہ کہتے جار ہے تھے اور اپنا دستِ مبارک حضرت علیؑ کے سر اور منہ پر پھیرتے جا رہے تھے۔19رمضان کی شب جب با ب العلم مسجد میں تشریف لائے۔عبدالرحمٰن ابنِ ملجم صفوں میں لپٹا لیٹا ہوا تھا۔حضرت علیؑ نے اسے ٹھوکر مار کر کہا"او ملعون اٹھ اور اپنے ناپاک ارادے پر عمل کر" ۔وہ قطامہ نامی ایک دوشیزہ سے بطور مہر حضرت علیؑ کی جان لینے کا وعدہ کر چکا تھا۔جب حضرت علیؑ سجدے میں گئے تو اس نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے آپ کے سر پر وار کر دیا۔آپ نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جس کئی پرتیں اور جہتیں ہیں۔ "ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا"۔آپ کو رضائے الٰہی کا علم تھا۔اس پر سر جھکا کر کامیابی سے گزر جانا ہی عظیم کامیابی تھی۔پھر آپ ہی کے بیٹے حضرتِ حسینؑ نے بھی سجدے میں اللہ کی رضا پر جاں نچھاور کر دی۔ایک تاریخ وہ ہوتی ہے جو مؤرخ اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھ کر لکھ رہا ہوتا ہے۔مگر ایسے واقعات کا اپنا ایک درجہ ہوتاہے جسے کائنات کا ربّ اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔اسے کہتے ہیں راضی برضا ہونا۔وہ جو راضی ہوئے وہ منزل پا گئے۔عرفان،معرفت اور بصیرت۔ کیا عِلم دیں تمہیں سایہ اوڑھنے والو۔۔ٹوٹا ہے کہاں پیڑ کہاں شاخ جلی ہے۔ ٭٭٭٭٭