24 نومبر2023ء کو قطر کی ثالثی سے غزہ پرصیہونی جارحیت میں7 دنوں کے عارضی وقفے کے دوران ایک یرغمالی کے بدلے ، تین فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ ہمیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس چیز نے ہمارے اندر مزاحمت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ ہمارے بچے بڑے ہوں گے تو وہ بھی مزاحمت کریں گے۔ مرح بکیر 22 برس کی ان 24 فلسطینی خواتین میں سے پہلی فلسطینی ہیں جنھیں حماس اورصیہونی حکومت کے معاہدے کے بعد رہائی ملی ہے۔ انھیں 16 سال کی عمر میں 2015ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔انھیں صیہونی حکومت کے نام نہاد بارڈر پولیس افسر پر چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’قید تنہائی بڑی عجیب چیز ہے، خاص طور پر جب سے انھوں نے مجھے لڑکیوں کے وارڈ سے علیحدہ کیا تو مجھے کچھ نہیں پتا چلا رہا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔یہ سب کچھ بہت مشکل تھا۔ مگر جب خدا پر ایمان ہو تو سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔کنارے سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو حماس کے ذریعے رہائی ملنے کے باعث مغربی کنارے جہاں محمودعباس کی کٹھ پتلی انتظامیہ ہے میں حماس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے لوگوں کا استدلال ہے کہ پورا غزہ ہی مؤثر طور پر ایک کھلی جیل ہے جہاں 22 لاکھ لوگوں کو صیہونی ریاست نے ایک چھوٹے سے ساحلی علاقے میں قید کر رکھا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔اقوام متحدہ کی گزشتہ موسم گرما میں جاری رپورٹ کے مطابق 1967ء میں جب مشرقی یروشلم، غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا گیا، تب سے اندازاً دس لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے زیرتسلط رہنے والے فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو کنٹرول کرنے والے 1600 فوجی احکامات کے تحت ہر پانچ میں سے ایک فلسطینی کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔فلسطینی مردوں کے لیے قید کی یہ شرح دوگنی ہو جاتی ہے، یعنی ہر پانچ میں سے دو کو گرفتار کیا گیا ہے۔اس کے مقابلے میں امریکا جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جیلوں کے لیے بدنام ملک ہے، وہاں 200 میں سے ہر ایک شخص قیدی ہے اور سیاہ فام امریکی قیدیوں کی شرح مجموعی شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔ لیکن یہ فلسطینیوں کے جیل میں وقت گزارنے کے امکانات کے اوسط کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔عرب خبر رساں ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے گروپ ’’ادامیر‘‘ نے اسرائیلی جیلوں کے نظام کو ’قوانین، طریقہ کار، پالیسیوں اور تباہ کن مشینری کی شکل میں ایک پیچیدہ ڈیزائن قرار دیا ہے جسے ختم کرنے اور قتل کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ محبوسین کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔1967ء کی جنگ میں فلسطینی اور عرب علاقوں پر قبضے کے دو ماہ بعد بدنام زمانہ ایک ملٹری آرڈر زیر نمبر 101 جاری کیا، جس میں بنیادی طور پرفلسطینی مسلمانوں کی طرف سے صیہونی ریاست کے خلاف کسی بھی طور’’مخالفانہ ردعمل‘‘ کو جرم قرار دیا گیا۔ اس سیاہ قانون کے تحت مقبوضہ فلسطین میں مظاہروں میں شرکت اور تنظیم، سیاسی مواد کی طباعت اور تقسیم، جھنڈے اور دیگر سیاسی علامتیں لہرانے، اور کسی بھی ایسی سرگرمی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے جو فوجی احکامات کے تحت غیر قانونی سمجھی جانے والی تنظیم کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتی ہو۔ یہ سیاہ قانون مغربی کنارے پر سختی سے نافذ العمل ہے جہاں محمود عباس کی کٹھ پتلی انتظامیہ قائم ہے تاہم غزہ میں حماس نے اس سیاہ قانون کو جوتے کے نوک پر رکھا ہوا ہے کیونکہ اس علاقے میں صیہونی ریاست کا اس طرح کوئی عمل دخل نہیں ہے جو مغربی کنارے میں موجود ہے ۔ اس بد نام زمانہ آرمی ایکٹ کے تین سال بعد صیہونی حکومت کی طرف سے ایک اور فوجی حکم (378) جاری کیا گیا۔ اس نے فوجی عدالتیں قائم کیں، اور بنیادی طور پر صیہونی ریاست کے قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی تمام اقسام کو نام نہاد ’ ’دہشت گردی‘‘ کے طور پر کالعدم قرار دے دیا۔اس کے بعد سے اب تک سینکڑوں دیگر فوجی احکامات جاری کیے گئے ہیں اور ان پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے تاکہ فلسطینی شہریوں اور ان کے سیاسی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔ صیہونی حکومت فلسطینی بچوں کی حراست کا فائدہ اٹھا کر انہیں مخبر بنانے اور ان کے خاندانوں کو بھاری جرمانے پر مجبور کر کے مالی طور پر استحصال کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت کے ملٹری آرڈر 1726 میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو فرد جرم عائد کرنے سے پہلے 15 دن تک روک تھام کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے اور ایک فوجی عدالت اس حراست میں ہر بار 10 دن تک زیادہ سے زیادہ 40 بار توسیع کر سکتی ہے۔ملٹری آرڈر 1745 میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ بچوں سے پوچھ گچھ کے سیشنوں کو آڈیو ویڈیو طور پر اس زبان میں ریکارڈ کیا جانا چاہیے جو بچوں کی سمجھ میں آتی ہے، لیکن اس میں حفاظتی بہانوں کے تحت گرفتار کیے گئے بچوں کو شامل نہیں کیا جاتا جس سے مراد تمام زیر حراست فلسطینی بچے ہیں۔ملٹری آرڈر 132 کے تحت، 16 سال اور اس سے زیادہ عمر کے بچوں پر فوجی عدالتوں نے بالغوں کے طور پر مقدمہ چلایا اور انہیں سزا سنائی۔مزید برآں، فلسطینی بچوں کو سزا ان کی سزائے سنائے جانے کے وقت عمر کے مطابق سنائی جاتی تھی ناکہ اس عمر کے مطابق جب اس بچے نے مبینہ جرم کیا ہو۔ اگست 2016 میں قانون تبدیل کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ 14 سال سے کم عمر بچوں کو مجرمانہ طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ 13 سالہ احمد منصورہ جس پر قتل کی کوشش کا الزام تھا، اسے 12 سال کی سزا سنانے سے پہلے اس کے 14 سال کے ہونے کا انتظار کیا گیا۔ صیہونی حکومت کی جیلوں سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کاکہنا تھاکہ جیلوں میںان کے ساتھ بدسلوکی ہورہی تھی اور ان پر تھوتھنی والے کتے چھوڑے جارہے تھے۔فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ کچھ گارڈز نے ہتھکڑی لگے قیدیوں پر پیشاب کیا۔