یہ ۱۹۹۰ء کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بیداری کی نئی لہر جنم لے چکی تھی ۔ اس نئی لہر میں نیا رنگ داخل ہو ا تھا۔ لہو کا رنگ ‘ جو اس سے قبل کشمیر کی تحریک میں نہیں تھا ۔ صدیوں سے چرب دست اور تر دماغ کشمیری رزم آرائی سے دور رہے جب بلی بھی تمام راستے مسدود پاتی ہے تو پنجے مارتی ہے ۔کچھ ایسا ہی اہل کشمیر کے ساتھ ہوا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پوری ریاست ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ ایک مدت بعد کشمیریوں نے صندوق کے عمل سے مایوس ہو کر بندوق اٹھا لی تھی ۔ قرار دادیں ‘ جلسے جلوس ‘ مطالبے اور مظاہرے کسی کام نہ آئے ۔ ایسے مرحلے پر جب غلامی کی طویل اندھیری رات کے خوگر بندوق کی طاقت کے عادی ہوئے تو گراں خوابی جاتی رہی ۔ بھارتی دانشوروں‘ حکمرانوں اور سیاست کاروں کے لیے یہ بات کسی اچنبھے سے کم نہیں تھی ۔ اضطراب ‘ بے چینی اور اداسی کے شکار جموں وکشمیر کے عوام میں اتنی جلد حوصلہ ‘ ہمت جرات اور امید کیسے پیدا ہوئی ؟یہ بات الگ ہے کہ ظالم جس زبان میں بات کرتا ہے آخر کاراسی زبان میں جواب پا کر ششدر ہوتا ہے۔جموں وکشمیر کی تحریک نئے مرحلے میں داخل ہوئی تو گلی محلے کے عام لیڈر سے لے کر سید علی شاہ گیلانی تک حوصلوں کو ضربیں دینے لگے ۔ برسوں کی غلامی اور صدیوں کی محرومی کے باعث ملت کشمیر کو ہر ایسے لیڈر کے اندر الہامی جو ہر پوشیدہ نظر آتے جو یہ کہتا …’’ان شاء اﷲ اگلی عید ہم مظفر آباد میں پڑھیں گے ۔‘‘یا’’ اگلی عید مل کر سری نگر میں منائیں گے۔ ‘‘اس آس اور آرزو کے سبب نیک نیت ہجوم مومناں‘ ہر رہرو کے ساتھ چلنے کو تیار رہتا ۔ ایسے ہر لیڈر کی پذیرائی بھی ہوتی اور اس کی شکل چاند میں نظر آتی تھی ۔ خوش گمانی کے انہی دنوں میں جناب غلام محمد صفی اور پروفیسر اشرف صراف سیز فائر لائن عبور کر کے آزاد کشمیر آئے تو گویا بیس کیمپ کے جذبوں میں آگ بھڑک گئی ‘ فتح اور انقلاب در پر دستک دیتا معلوم ہونے لگا ۔ بھمبر سے اٹھمقام تک ان حضرات نے ’’ کاروان مجاہدین ‘‘ کی قیادت کی ۔ہر قصبے اور گائوں میں جلسے کیے ۔ یہ بھی یہی کہتے تھے اگلی عید سری نگر کے اقبال پارک میں ادا کریں گے۔ سید علی شاہ گیلانیؒ خطاب کر کے مسجد سے باہر نکلے تو ستر اسی برس کے ایک شخص نے ان کا راستہ روک لیا اور جذباتی لہجے میں بولا۔ ’’ گیلانی صاحب یہ آپ نے کیا کہا ‘ میرے ساتھ تو آپ نے بہت ظلم کیا ۔‘‘ گیلانی صاحب نے حیرت سے پوچھا …’’کیوں بھئی میں نے کیا ظلم کر دیا ؟‘‘ اس نے غصے سے کہا ۔ آپ کہتے ہیں یہ جنگ طویل اور صبر آزما ہو سکتی ہے ۔ جب کہ مجھے تو بتایا گیا تھا چند مہینوں کی بات ہے کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ میں نے اس امید پر اپنی بیٹی کی شادی ملتوی کر دی ہے ۔اب مجھے بچی کے سسرال والے طعنے دیں گے ۔ یہ کیا کہہ دیا ہے آپ نے ۔‘‘گیلانی صاحب نے اس کا حوصلہ بڑھایا لیکن یہ نہ کہہ سکے۔ ’’ تم اپنی بیٹی کی شادی کر دو ‘ شاید مزید بیس برس لگ جائیں ۔ ‘‘ چونتیس برسوں میں زندگی کے تمام پیمانے بدل کر رہ گئے ۔ وہ شخص جس کا اعتماد اور امیدیں جواں تھیں آج شاید ہی زندہ ہو ۔ اس کی بیٹی کی اگر شادی ہو گئی تھی تو وہ اب نانی بن چکی ہوگی ۔ ایسے ہی ایک دن جب افغانستان سے ایک وفد مظفر آباد آیا اور وہاں پر موجود کشمیر ی قائدین سے ملا۔ وفد کے ارکان کشمیر کی تحریک اور گوریلا جہاد کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہتے تھے ۔اس مقصد کے لیے وہ بار بار ان قائدین سے ’’ ٹیڑھے ‘‘ سوال کرتے تھے۔ وہ ان کو باور کرا رہے تھے جو کام کشمیر میں شروع ہوا ہے اس کو انجام تک پہنچانے کے لیے بیس سال سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے لہٰذا آپ لوگ خیموںمیں رہنے کے بجائے پہاڑوں میں چلے جائیںاور ’’ پختہ کمین گاہوں ‘‘ میں رہنے کی عادت ڈالیں ۔ وفدکی یہ باتیں ہمارے قائدین کو ناگوار گزررہی تھیں جس کا اظہار انہوں نے آخری خطابات میں کر کے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ ’’ ہم افغانی نہیں ہیں ہم کشمیری ہیں اور ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ ‘‘ افغانی وفد کے چہروں پر ناگواری کے آثار بھی تھے لیکن ان میں سے ایک ’’ سیانے افغانی‘‘ نے اپنے موقف کی تائید میں پھر کہا ’’ اگر کشمیر میں چلنے والی موجودہ تحریک کی منصوبہ بندی آپ نے خود کی ہے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ بہت جلد آزادی حاصل کر لیں گے لیکن اگر یہ منصوبہ عمل کسی اور کا ہے اور عمل آپ نے کرنا ہے تو یاد رکھیے آپ عمل اسی ’’ منصوبہ عمل‘‘ کے مطابق ہی کر سکیں گے۔ ‘‘ شاید بحث لمبی ہو جاتی اور ایک دوسرے کو طعنے دینے کی نوبت بھی آ جاتی کچھ لوگوں نے معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ تین دہائیاں گزر گئیں۔اوڑی سے لکھن پور تک ریاست جموںو کشمیر کا ہر پیرو جوان بھارت سے آزادی چاہتا ہے اور اس کے لیے یہاں کے وفا شعار عوام نے بڑی سے بڑی قربانی بھی دے دی ہے ۔ کشمیر کے لالہ زار شہیدوں کے قبرستانوں سے سجے ہوئے ہیں۔ پانچ لاکھ انسانوں کی جانیں قربان کر کے آزادی کی قیمت ادا کرنے والے جموں وکشمیر کے عوام سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے اور پوچھتے ہیں کہ اب تو کئی دہائیاں گزر گئی ہیں پھر بھی آزادی کی منزل قریب کیوں نہیں آئی ؟کتنی عیدیں آئیںا ور گزر گئیں لیکن بیس کیمپ کے قائدین سری نگر کی جامع مسجد میںعید کی نماز پڑھ سکے نہ سری نگر کے رہنما مظفر آباد کی عید گاہ میں آ کر خطبہ عید سن سکے ۔ خیموں میں پڑے مہاجرین کچی کوٹھڑیوں میں منتقل ہو گئے اور سات دہائیوں کے بعد بھی ’’ مہاجر‘‘ کے تمغے سجائے کسمپرسی کی زندگی ’’ انجوائے‘‘ کر رہے ہیں ۔قا ئدین کشمیر اور مہاجرین کشمیر کی نسلیں بیس کیمپ اور پاکستان میں دل لگا بیٹھیں ‘ الا ما شاء اﷲ ان میں سے خال خال ایسے ہوں گے جن کو اپنی غلامی کی تاریخ اور کشمیر پر ٹوٹنے والے ظلم کی کوئی خبر ہو ۔ جانے کیا افتاد پڑی کہ ہم مہاجروں کے حافظے کمزور ہو گئے ۔ جانے کیا خوف جلوہ گر ہوا کہ ہم اپنے ہی بچوں کا لہو بھول کر کسی معجزے کا انتظار کرنے لگے ۔ایسا معجزہ جو ہمیں اگلی عید سری نگر میں پڑھنے کی سہولت فراہم کر دے ۔ افسوس عید تو دور کی بات تھی ہم اپنوں کے جنازوں کو کندھا دینے اور ان کو لحد میں اتارنے کے قابل بھی نہ ہو سکے اور یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے ۔