پاکستان میں گندم ایک ایسی فصل ہے جس سے جڑا ہو ا کو ئی نہ کوئی بحران ہمیشہ سے ہی زیرِبحث رہتاہے ۔وہ بحران مارکیٹ میںگندم کی خریداری کے حوالے سے قیمتوں کے عدم توازن سے جڑا ہوا ہو یا صارفین کے لیے آٹے کی قیمتوں میں بے قابو اضافے سے ، وہ بحران گندم کی اسمگلنگ سے جڑا ہو یا ذخیروں سے چوری ہو جانیوالی گندم ، یا وہ گندم جسے چوہے کھا جائیں ،وہ بحران اپنی ہی آبادی کی ضرور ت سے کم پیداور سے جڑا ہواہو جو درآمد ات سے ایک کمزور معیشت پر بوجھ بن جائے یا زیادہ پیداور کی صورت میں گندم کی بلاضرورت برآمد جو بعد ازاں ایک ایسے بحران کو جنم دے جو مزید درآمد پر منتج ہو ۔مختصر یہ کہ امسال بہتر پیداور کے باوجو د ہمیں ایک نئے بحران کا سامنے ہے ۔ گندم کا موجودہ بحران ایک ایسے گرد باد کی شکل اختیار کرگیا ہے جس کی وجہ سے حقیقت تک رسائی انتہائی دشوار نظر آرہی ہے ۔ یہ دشواری اس لئے بھی ہے کہ وہ اہل ِعلم جو گندم کی مارکیٹ پر سالوں سے نظر رکھے ہوئے تھے اور اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ اس مارکیٹ میں حکومت کی مداخلت، لاپروائی اور بد انتظامی نے بے شمار مسائل کو جنم دیا ہے ، موجودہ صورتحال پر کھل کر بات نہیں کر رہے ۔فری مارکیٹ کا چرچا کرنے والے وہ تمام دانشور جو گندم کی مارکیٹ سے حکومت کے نکل جانے کی وکالت سال ہا سال سے کرتے چلے آرہے تھے اب کھل کر سامنے آنے کی بجائے بیچ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حالانکہ یہی وہ موقع ہے جہاں آپ کو درست حقائق اور دلائل کے ساتھ اپنی قوم کو قائل کرنا ہے ۔موجودہ بحران کے اسرار و رموز کو کھوجنے سے پیشتر یہ ضروری ہے کہ گندم کی مارکیٹ اور اس سے جڑے ہوئے عوامل کا اجمالی جائزہ لے لیا جائے ۔ گذشتہ برس حکومت نے کل پیداوار کے بیس فیصد کے قریب گندم کی خریداری کی ۔PIDEکی تحقیق کے مطابق گندم خریداری کے اس عمل کا بوجھ دو سو ارب کے لگ بھگ تھا ، ابھی اس میں ذخیرہ اندوزی کے لئے مختص گوداموں کے کرایہ یا قیمت کو اس میں شامل نہیں کیا گیا چونکہ گندم کی خریداری کا عمل مقامی بنکوں سے قرض حاصل کر کے سرانجام دیا جاتاہے سو فقط گذشتہ برس کے قرض پر سود کا کل بوجھ 89ارب کے لگ بھگ ہے۔خریداری کے عمل پرصرف ہونیوالی رقم کا تخمینہ 46ارب کے لگ بھگ ہے۔جبکہ اس زخیرہ اندوزی میں ضائع ہو جانیوالے گندم کا اندازہ 64ارب کے لگ بھگ ہے۔گردشی قرضوں کا بوجھ اس کے علاوہ ہے۔ صرف پنجاب حکومت پر گردشی قرضے کا بوجھ 680ارب کے لگ بھگ ہے ۔مزید برآں اس سارے عمل کی سہولت کاری کے لئے تخلیق کئے گئے اداروں مثلاََ PASSCOاور صوبائی محکمہ خوراک کے لئے مختص کئے جانیوالے بجٹ بھی اربوں روپے کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ۔ محکمہ خوراک پنجاب کا گذشتہ برس کا بجٹ 273ارب روپے ، جبکہ پاسکو کا بجٹ 700ملین روپے تھا ۔اس سب کے علاوہ دیگر صوبوں کے اخراجات اور مختلف اقسام کی سبسڈیوں پر صرف ہونیوالااربوں کا سرمایہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ گندم کی حکومتی خریداری کے حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ گندم کی خریداری کے اس عمل کی وکالت جن چھوٹے کسانوں کے نام پر کی جاتی ہے وہ اس کے ثمرات سے بڑے پیمانے پر محروم ہیں ۔ تحقیق سے واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان میںگندم کی کل پیداور کا 71فیصد بڑے کسان پیدا کرتے ہیںجبکہ وہ اس پیداوار کا 84فیصد فروخت کرتے ہیں ۔ دوسری جانب چھوٹے کسان جو کل کسانوں کا 64فیصد کے قریب ہیں ، صرف پانچ ایکڑ تک کے رقبہ کے مالک ، ان کا حصہ کل پیداوار میں 11فیصد ہے جبکہ یہ صرف 6.4فیصد پیداوار فروخت کرتے ہیں ۔ چونکہ گندم ہماری بنیادی خوراک ہے سو پیداکردہ گندم کا چالیس فیصد کے قریب صرف خوراک، بیج اور جانوروں کے استعمال وغیرہ میںصرف ہوجا تاہے ۔ جبکہ باقی ماندہ گندم کا بھی زیادہ تر حصہ ان کسانوں کو ضرورت کے وقت کھاد، سپرے وغیرہ ادھا ر پر فراہم کرنے والے سہولت کاروں کو فروخت کیا جاتا ہے ۔ مزید برآں اس عمل کا مقصد مارکیٹ میں آٹے اور گندم کی قیمتوں میں توازن کو برقرار رکھنا ہے جس میں حکومت کبھی کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ انہی مسائل کی وجہ سے گذشتہ کئی برسوں سے یہ تجویز سامنے آرہی تھی کہ حکومت کو گندم کی خریداری سے دستبردار ہو جا نا چاہیے مگر دستبرداری کا یہ عمل بتدریج ہو نا چاہیے تاکہ کوئی بحرانی صورتحال پیدا نہ ہو ۔ اب اگر پنجاب حکومت نے اس عمل سے بتدریج نکلنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ایک نہایت ہی احسن اقدام ہے مگر اس کی انتظامی کمزوریوں اور کمزور وکالت نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پنجاب حکومت کلی طور اس عمل سے دستبردار نہیں ہورہی صرف ٹارگٹ پچاس فیصد کے قریب کم کیا گیا ہے اور اس ٹارگٹ کو چھوٹے کسانوں ، 6ایکڑ کے کسانوں تک محدود کیا گیا ہے ۔ باقی ماندہ صوبوں اور وفاقی سطح پر PASSCOاُسی طر ح سے گندم کی خریداری کر رہاہے بلکہ پاسکوکا ٹارگٹ بھی گذشتہ برس کے مقابلے میں پچاس فیصد بڑھا دیا گیاہے ۔گذشتہ برس ملک بھر میں صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے خریدی جانیوالی والی گندم کا حجم 5.88ملین ٹن تھا ۔ جبکہ اس برس کا کل حجم گذشتہ برس کے مقابلے میں تقریباََ بیس فیصد کم ہے۔ چنانچہ جو بحران عوام کو بیچا جا رہاہے وہ حقیقت میںویسا ہے نہیں جیسا پیدا کیا جا رہا ہے یا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔خریداری میں تاخیر کو گندم میں نمی کی مقدار سے جوڑا جا رہا ہے جو قابل ِ فہم ہے ۔اس بحران میں دوسرا پہلو حکومت کی گندم کی درآمد کی اجازت سے جڑا ہوا ہے جس پر اس وقت سب سے زیادہ مباحثہ ہو رہا ہے ۔ چنانچہ اس امر کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ گندم امپورٹ کا حکومتی فیصلہ درست تھا یا نہیں۔(جاری ہے)