ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ حکومت امدادی قیمت کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے ۔ امدادی قیمت کا بنیادی مقصدایک طرف کسانوں کی مدد جبکہ دوسری طرف صارفین کے لئے مناسب قیمت پر گندم کی فراہمی ہے ۔ہم مسلسل اس امر کا مشاہد ہ کر رہے ہیں کہ یہ دونوں مقاصد حاصل نہیں ہو رہے ۔فیصلے اس وقت اسی وقت بہترین ہوتے ہیں اگر وہ بروقت ہوں مگر گندم کی امدادی قیمت کے سلسلے میں گذشتہ تین برس تک مسلسل گندم کی امدادی قیمت کا اعلان مارچ میں کیا جاتا رہا، آپ یہیں سے فیصلہ سازوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ امسال پہلی بار مدادی قیمت کا اعلان دوران کاشت یعنی بروقت کیا گیا ہے جس کے شاید اس کی کاشت پر مثبت اثرات ہوں ۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ گندم کی امدادی قیمت کے ثمرات ہمارے چھوٹے کسانوں تک نہیں پہنچ پا رہے جس کی وجہ سے یہ تقاضا پوری شدت سے سامنے آرہا ہے کہ حکومت کو امدادی قیمت سے دستبردار ہو جانا چاہئے اور گندم کو مکئی کی طرح مارکیٹ پر چھوڑدینا چاہیے۔ گندم کی امدادی قیمت کے ثمرات ہمارے چھوٹے کسانوں تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے اس کے لئے ہمارے زرعی منظرنامے اور گندم کے استعمال کے زرائع کو سمجھنا ہو گا۔ پنجاب میں چونسٹھ فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس5 ایکڑ یا اس سے کم اراضی ہے اگر یہ دائرہ کار 12.5ایکڑ تک بڑھا دیا جائے تویہ قریب قریب نوے فیصد کسان بنتے ہیں۔ کل پیدا کردہ گندم کا پینتیس سے چالیس فیصد گھریلو استعمال ، بیج اور جانوروں کے لئے استعمال ہو جاتا ہے ۔جبکہ باقی ماندہ گندم کا بڑا حصہ قرض پر حاصل کی گئی کھاد اور سپرے وغیرہ کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ امدادی قیمت کی عملداری کی داخلی پیچیدگیوں کا ہے ۔مثال کے طور آپ کو پہلے درکا ر باردانہ کی قیمت ادا کرنی ہو گی، باردانہ حاصل کر کے آپ کو یہ گندم خود خریداری کے مراکز تک پہنچانی ہے اگرچہ اس کے اخراجات حکومت ادا کر دیتی ہے مگر اتنے جھنجھٹ میں چھوٹا کسان نہیں پڑتا جس کے پاس پہلے ہی دیگر مقاصد پہ صرف کے بعد کم مقدار ہی بچتی ہے ۔ایسے میں وہ اپنی گندم اسی سہولت کارکو کم قیمت پر بیچ دیتا ہے جو اس کے کھیت سے اسے لے جاتا ہے اور ضرورت کے وقت اسے قرض پر کھاد ، سپرے وغیرہ بھی فراہم کرتاہے۔اگرچہ تھوڑی کم سہی مگر وقت پر قیمت ملتی ہے چنانچہ اس منصوبہ بندی کا تمام تر فائدہ صرف بڑے کسانوں تک ہی محدود ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرضوں کی مد میں پنجاب حکومت کو زراعت کا شعبہ کافی مہنگا پڑ رہا ہے ۔کل قرضوں کے بوجھ کا 26فیصد صرف زراعت کے شعبہ کے لئے لیا جاتا ہے۔حکومت امدادی قیمت کے تمام تر منصوبہ کو بنک سے قرضہ حاصل کر کے چلاتی ہے جس پر اسے سود بھی ادا کرنا ہو تا ہے ۔صرف صوبہ پنجاب میں سو د کی مد میں ادا ہونیوالے قرضے کا بوجھ 680ارب ہو چکا ہے ۔ مزید برآں محکمہ خوراک کا اربوں روپے کے بجٹ اس کے علاوہ ہے ۔گندم کی خریداری اور پھر ان مراکز میں ان کے سالانہ انتظام و انصرام پر اربوں روپے کا سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔یہاں گندم کو محفوظ کرنے کے عمل کے دوران ہونیوالے نقصانات اس کے علاوہ ہیں ۔پاکستان کو اپنی زرعی سپلائی چینز کے ساتھ بہت سنگین مسائل درپیش ہیں - جس کی وجہ سے بعض اوقات فصلوں کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ انہیں وقت پر منتقل اور ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔یہ بوجھ گندم کے ضمن میں بھی بہت واضح ہے ۔چنانچہ ایک ایسا منصوبہ جو مسلسل قرض کا بوجھ بڑھا رہا ہے اور اس کا فائدہ بھی چھوٹے کسانوں تک نہیں پہنچ پا رہا تو اسے ختم کردینا ہی بہتر ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہمارا گندم کی امدادی قیمت سے کسانوں کی مدد کا طریقہ کار ملک میں مزید مہنگائی کا سبب بنتا ہے ۔ گندم کی امدادی قیمت کا تعین اور فیصلہ پیداواری لاگت سے کیا جاتا ہے ۔چونکہ مہنگائی اپنی تاریخی حدود کو بھی پھلانگ چکی سو پیداواری لاگت بھی اس رفتار سے بڑھی اورــگندم کی امدادی قیمت 2200سے بڑھا کر 3900روپے فی من مقررکردی گئی جو کہ امسال 4000 فی من کر دی گئی ہے۔ایسے عوامل سے یقینی بات ہے کہ ہمارے آخری صارف کو بھی اس قیمت میںاضافے کی وجہ سے مہنگاآٹا خریدنا ہو گا۔اور ایسی صورتحال میں جب کسی بھی بیرونی یا اندرونی وعوامل کے نتیجے میں قیمتیں مزید بڑھتی ہیں تو سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا طبقہ ہمارا آخری صارف ہی ہوتاہے ۔ حکومت کی کمزور استعداد کار کی وجہ سے ابھی بھی بازار کی قیمتیں امدادی قیمت سے کہیں زیادہ ہیں جس کا مطلب ہے منصوبے کا مقاصد حاصل نہیں ہو رہے ۔ اس ساری صورتحال کا بہترین متبادل یہ ہو سکتاہے کہ حکومتی اقدامات کا رخ امدادی قیمت کی بجائے پیداواری لاگت کو کم کرنے کی طرف موڑدیا جائے ۔سو بیج، کھاد ، سپرے ، زمین کا کرایہ وغیرہ کی قیمتوں کو قابومیں رکھنے یا کم کرنے کے لئے سہولیات فراہم کی جائیں گی تو پیداواری لاگت کم ہوگی ۔ امدادی قیمت بھی کم رکھنی پڑے گی اور آخری صارف تک بھی گندم کم قیمت میں پہنچ سکے گی ۔اگرچہ حکومت کھاد اور اس طرح کے دیگر عوامل پر بھی سبسڈی فراہم کر رہی ہے مگر یہاں بھی سبسڈی کی عملداری کی دقت چھوٹے کسان کو اس کے ثمرات سے محروم رکھتی ہے ۔ چونکہ تمام تر سبسڈیز جو کھاد وغیرہ کے ضمن میں ہیں ری ایمبرسمنٹ کی بنیاد پر ہوتی ہیں چنانچہ پیسے کی کمی کا شکا ر چھوٹا کسان کیسے پہلے درکار ان پٹ خریدے اور پھر اس جھنجٹ میں پڑے چنانچہ یہ سہولت کار جو سب وسائل ضرورت کے وقت اسے مہیا کرتے ہیں اس کی پیداوار بھی وہی حاصل کرتے ہیں ۔ چنانچہ حکومت کے چھوٹے کسانوں کے نام پر شروع کئے گئے منصوبوں سے فائدہ صرف درمیانے یا کلی طور پر بڑے کسانوں کو پہنچ رہا ہے ۔ چنانچہ اس امدادی قیمت کو ختم کر دینا چاہیے اور کو ئی نیا نظام ترتیب دیا جا نا چاہیے ۔ (جاری ہے)