دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ گندم کی قیمتوں کے اضافے کے پس منظر میںعالمی بازار کے رجحانات کس حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں ۔یقینی بات ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں جن دوعوامل نے گندم کے عالمی بازار کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں سر فہرست موسمیاتی تبدیلی ہے جبکہ اس نتیجے میں متاثر ہونیوالی عالمی سپلائی چینز ۔ دوسرا عمل، روس اور یوکرائن کے درمیان ہونیوالی جنگ ہے جس نے انتہائی شدت سے عالمی بازار کو متاثر کیا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں بلیک سی گرین ڈیل (Black Sea Grain Deal)کی وجہ سے اس مارکیٹ کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی مگر روس اس ڈیل سے دستبردار ہو گیا ۔مزید برآں بھارت نے نان باسمتی چاول کی برآمدپرپابندی عائد کردی ، چونکہ بھارت دنیا بھر کو چالیس فیصد کے قریب چاول برآمد کرتا تھا اور دنیا کے بیالیس ممالک ، جن کی پچاس فیصد سے زائد ضروریات کا انحصار اسی پر تھا ، بڑی شدت سے متاثر ہوئے۔ عالمی بازار میں چاول کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ چونکہ گندم ،چاول کا قریب ترین متبادل ہے سو گندم کی طلب میں بھی اضافہ ہو گاجو عالمی بازار میں گندم کی قیمتوں میں مزید اضافے پر منتج ہو گا ۔ ہمیں ابھی بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے گندم برآمد کرنی ہے تو اس عمل کے براہ راست اثرات یہاں کی مقامی مارکیٹ پر بھی ہوںگے جس سے گندم کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے ۔ مگر یہ سارے عوامل ہمارے لئے غیر متعلقہ ہو سکتے ہیں اگر ہم فی الحال اپنی کفالت جتنی پیداوار ہی بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں ۔ ہماری زمینوں کی صلاحیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ بصورت دیگر گندم کی قیمتوں میں آئے روز کے اُتار چڑھاو، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی بے لگام ضروریات اور درآمد کے بوجھ سے مستقبل قریب میں یہ صورتحال مزید گھمبیر بھی ہو سکتی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابلے میں گندم کی پیداوار میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جسکی وجہ سے رسد کی کمی پیدا ہوتی ہے جودیگر مسائل کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ اگرچہ گندم کی کاشت اور پیداواری اعتبار سے پاکستان دنیا میں ساتواں بڑا ملک ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے ہم دنیا میں باسٹھویں نمبر پر ہیں۔ گندم کے کل قابل کاشت رقبہ میں 12.5فیصد بارانی جبکہ 87.5فیصد نہری پانی سے سیراب ہو تا ہے جہاں سے مجموعی پیداوار کا 93.6فیصد حاصل کیا جاتا ہے۔ گندم کی کا شت کے حوالے سے سب سے اہم صوبہ پنجاب ہے جس کا کل قابل کاشت رقبہ میںحصہ 66فیصد سے زائد ہے جبکہ مجموعی پیداوارمیں اس کا 70فیصد سے بھی زائد ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں بیسیوں تحقیقاتی اداروں کی تیار کردہ اقسام جن کی ممکنہ استعداد بھی کافی زیادہ ہے، سرٹیفائیڈ بیج کی بہتر فراہمی(جو کہ ابھی بھی گندم کے ضمن میں صرف 48فیصد ہے) اور بے شمار اقدامات کے باوجود ہم گندم کی اوسط پیداوار بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔گندم کی کاشت کا رقبہ دوتین فیصد کی کمی بیشی سے90 لاکھ ہیکڑ کے آس پاس ہی ہے جبکہ اوسط پیداوار بھی 28 سے 31من فی ایکڑ کے لگ بھگ ہی ہے ۔گزشتہ بیالیس برس کے دوران گندم کے زیرکاشت رقبہ میں اضافہ کی رفتار 0.6فیصدسالانہ جبکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کی رفتار 1.7فیصد سالانہ ہے حالیہ مردم شماری کے مطابق ہماری آبادی کی شرح نمو 2.55فیصد ہے ۔چنانچہ یہ بہت واضح ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کئے بغیر ہم اپنی ضروریات پوری نہیں کر پائیں گے۔ دوسری جانب ہمارا ہمسایہ بھارت ہم سے تقریباََ7فیصدفی ایکڑ زائد پیداوار حاصل کر رہاہے ۔ چین کی اوسط پیداوار 57من فی ایکڑ ہے جس میں گزشتہ دس برس سے مسلسل 2فیصد سے زائد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے ۔آخر ہماری پیداوار ہی ایک خاص رفتار سے زائد کیوں نہیں ہو پا رہی ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس میں تحقیقاتی اداروں نے بے شمار ورائٹیز متعارف کروائی ہیں مگرہماری تحقیق کے اثرات اور ثمرات پوری طرح سے پیداوار میں منتقل نہیں ہو رہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ بیج کی پیداوار، قیمتوں کے تعین اور فروخت میں حکومتی مداخلت بے حدزیادہ ہے جس کی وجہ مارکیٹ کام نہیں کر پارہی اور درکار سرٹیفائڈ بیج پیدا کرنے میںپوری طرح ناکام ہے ۔ پاکستان میں بیج کی بہت بڑی غیرروائتی مارکیٹ ہے جس کا حصہ گندم کے ضمن میں2022کے اعدادوشمار کے مطابق 52فیصدہے ۔ ہمارے کسان جدید اور سرٹیفائیڈ بیج کی بجائے اپنے ہی محفوظ کردہ بیج یا مقامی ذرائع سے حاصل کردہ بیج جن میں بڑے اورہمسایہ کسانوں ، مقامی ڈیلرز سے حاصل کئے جانے والے بیج کا حصہ نمایاں ہے ،جس کا نتیجہ وہی اوسط پیداوار ہے ۔دوسرا اہم کام حکومت کا یہ ہونا چاہیئے کہ مارکیٹ میں ایسے عناصرکو ختم کیا جائے جو سرٹیفائیڈ بیج کے نام پر غیرمعیاری بیج کی فروخت سے کسانوں کا اعتماد اور پیداوار دونوں کو تباہ کر رہے ہیں۔اس ضمن میں حکومت کی کمزور استعداد پوری طرح سے آشکار ہے جس کا نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے ۔ (جاری ہے)