گندم امپورٹ کے مسئلے کو گہرائی سے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام پہلووں کا احاطہ کیا جائے جن کی بنیاد پر یہ فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ اہم ہے کہ ہماری گندم کی ضرورت ہے کیا اور اس ضرورت کا تعین کیسے کیا جاتا ہے ۔ ملک بھر میں گندم کی سالانہ ضرورت کا تعین گندم کے فی فرد سالانہ استعمال سے کیا جاتا ہے ۔گذشتہ برس ہونیوالی مردم شماری کے مطابق ہم قریب قریب 24.5کروڑافرادکا ملک بن چکے تھے جبکہ امسال یہ آبادی 24.77کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی ہے ۔اس میں کشمیر کو بھی شامل کر لیا جائے تو اندازاًََ ہماری کل آبادی 25کروڑ کے قریب ہے ،جس کے لیے ہمیں گندم کی ضرورت کا تعین کرنا ہے۔ اس تعین کے لئے اس وقت چارقسم کے مختلف پیمانے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ پیمانے قومی مرکز برائے زرعی تحقیق(NARC)،ادارہ برائے زرعی منصوبہ بندی (API)، منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ اورہاوس ہولڈ انٹگریٹڈ اینڈ اکنامک سروے (HIES)کی جانب سے وضع کیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق ہماری فی فردسالانہ گندم کی ضرورت بالترتیب 124 ،112.83 ، 115 ، اور 84 کلوگرام ہیں ۔ کم از کم دس لاکھ ٹن گندم، فوڈ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے سٹریٹجک ریزروکے طورپر محفوظ رکھنا ہوتی ہے جبکہ کل پیداوار کا 10 فیصد کے قریب بیج اور جانوروں کی فیڈ کے ساتھ ساتھ گندم کو محفوظ رکھنے میں ہونیوالے نقصان کا تخمینہ ہے ۔ یوں ہماری کل سالانہ ضرورت بالترتیب 345 ، 318، 323،اور 246لاکھ ٹن بنتی ہے۔ گذشتہ برس ہماری کل پیدوار 281لاکھ ٹن تھی جبکہ پہلے سے موجود ذخائر 22لاکھ ٹن کے قریب تھے ۔جس کا مطلب ہماری گندم کی کل رسد 303لاکھ ٹن تھی ۔ اب اس رسدکا موازنہ طلب یا ضرورت سے کیا جائے تو صرف HIES ہی ایک ایسا پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری پیداوار ضرورت سے 57لاکھ ٹن زائدتھی۔ جبکہ پہلے تینوں پیمانوںکی بنیاد پر ہم اپنی طلب کے لئے درکار گندم پیدا کرنے میں ناکام تھے ۔ ان پیمانوں کی بنیاد پر ہمارا خسارا 42، 15اور 20لاکھ ٹن بنتا ہے۔یہ خسارہ عمومی طور پر گندم کی درآمد سے پورا کیا جاتاہے۔ یہی وہ پیمانے ہیں جن کی بنیاد پرمختلف حکومتیں اور منصوبہ سازادارے گندم کی درآمد کے فیصلے کرتے ہیںاور درآمد کی اجازت دی جاتی ہے۔ اب یہ تو واضح ہو چکا کہ گذشتہ برس گندم کی پیداوار ضرورت سے کم تھی جو یقینی بات ہے کہ درآمد کے ذریعے پوری کی جانی تھی اور ممکنہ درآمدات کا حجم 14سے 42لاکھ ٹن ۔ لیکن یہاں ایک بہت اَہم سوال جنم لیتا ہے کہ گندم کی ضرورت کے تعین کے لیے وضع کئے گئے سبھی اعدادوشمار کے پیمانوں کا بنیادی ماخذ حکومت ِ پاکستان ہی ہے تو HIESاور دیگر اداروں کے تخمینوں میں اتنا زیادہ فرق کیوں ہے ۔ آخر کس کے اعدادوشمار پر اعتبار کیا جائے ۔بروقت اور پائیدار فیصلوں کے لئے کوئی ایک ہی مناسب پیمانہ کیوں نہیں وضع کیا گیا ۔ منصوبہ بندی میں یہی غفلت بعدازاں بحرانوں کو جنم دینے والے فیصلوں کو جنم دیتی ہے ۔ ہمارا ایک اور اہم مسئلہ پاکستان سے گندم کی سمگلنگ کا بھی تھا ۔مگر گذشتہ برس افغانستان نے روس سے سستے داموں گندم خرید لی جس کی وجہ سے اس خدشے کے دروازے بھی بند ہو گئے ۔مگر چونکہ پیداوارضرورت سے کم تھی سو ر درآمد ناگزیر تھی ۔چنانچہ گندم درآمد کرنا یا درآمد کی اجازت دینا کوئی جرم نہیں تھا۔ جہاں تک گندم کی درآمد کے طریقہ کار تعلق ہے تو حکومت نے درست اقدام اُٹھائے مگر ان کی مناسب نگرانی سے لاپروائی برتی گئی ۔ پاکستان میں عمومی طور پر گندم ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) کے ذریعے درآمد کی جاتی ہے ۔ چونکہ یہ عمل بنکوں سے قرض حاصل کر کے سرانجام دیا جاتا ہے تو ماضی کی درآمدات کی وجہ سے TCPپر تین سو ارب کے قریب پہلے ہی قرض کا بوجھ تھا تو اس بوجھ کو مزید بڑھانے سے احتراز برتاگیااور نجی شعبے کو اس کی اجازت دے دی گئی ۔ مگر امسال اس درآمد میں دو بہت بڑی مجرمانہ غفلتیں برتیں گئیں جس کی وجہ سے صورتحال زیادہ گھمبیر ہوئی ۔اس میں پہلی غفلت مارچ کے مہینے تک درآمد کی اجازت کو برقرار رکھنا تھا، اس کے باوجود کہ اس عرصہ میں سندھ میں گندم تیار ہو چکی ہوتی ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپریل میں بھی درآمد شدہ گند م کے جہاز ہمارے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے ۔ دوسری غفلت ، محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کی نشاندہی کے باجود ایک لاکھ ٹن سے زائد ایسی گندم درآمد کرلی گئی جس میں زندہ کیڑے موجود تھے۔ درآمد کی اجازت اس لحاظ سے بھی درست تھی کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں قیمتں، روس اور یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے کم ترین سطح پر تھیں ۔ سو اگر گندم درآمد کرنا تھی تو یہی وقت مناسب تھا ۔ مگرقیمتیں اس قدر کم تھیںکہ اس برس اجازت کے ساتھ GSTاور دیگر ٹیکسوں کی چھوٹ کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔اگر چھوٹ دی گئی تھیں تو اس کے اثرات صارفین تک کم قیمت آٹے کی صورت میں پہنچنے چاہئیں تھے مگر اس سے غفلت برتی گئی یا نجی شعبے کو نوازاگیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ برس کٹائی کے چند ماہ بعد ہی قیمتیں نہائیت تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی تھیں جو کہ خیبر پختونخوا پانچ ہزار فی من سے زائد جبکہ صوبہ سندھ میں پانچ ہزار فی من کے قریب تھیں ۔پنجاب میں یہ قیمتیں 4600 کے آس پاس تھیں ۔ سوایسے میں درآمد کی اجازت دینا تو درست ہے مگر مارکیٹ کی کمزور نگرانی حکومت کی اصل غفلت ہے۔ درآمد کے بعد یہ قیمت نیچے آنی چاہیے تھی مگر نجی شعبے نے اس موقع سے بھرپور استفادہ کیا ۔ (جاری ہے)