ڈومی سائیڈ ایک جدید جنگی اصطلاح ہے اور آج کل غزہ کی تباہی اور اسے رہنے کے قابل ہی نہ رہ دینے کے لیے برتی جا رہی ہے۔غزہ بنیادی اور تاریخی طور پر کنعان کی بستی تھی حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ والا کنعان۔ غزہ کی جنگ سات اکتوبر 23 کو شروع ہوئی تھی تب سے آج تک ہم نے اس جنگ کے متعلق اسرائیل کی بربریت اور عالمی جنگی قوانین اور ان کی پاسداری کے متعلق بہت سارے متعلقہ مضامین کا ترجمہ کر کے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔چونکہ یہ یک طرفہ جنگ ہے اور عام سول آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اس جنگ کے متعلق یہاں اپنے اخبارات میں زیادہ نہیں لکھا گیا۔ہم نے حمیت ِاسلامیہ اور حمیت ِانسانیہ کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے کہ جنگ کے اختتام (خدا کرے یہ جنگ جلد ختم ہو ) تک اور اس مسلم خطے کی دوبارہ آباد ہونے یا قابل رہائش ہونے تک اس پر لکھتے رہیں گے۔ہم اس ظلم کو بھولنے والوں میں سے کبھی بھی نہیں ہوں گے۔آغاز میں جس ڈومی سائیڈ اصطلاح کا استعمال ہوا ہے اس کا مغرب کے پرنٹ اورالیکٹرک میڈیا میں باقاعدگی سے ذکر ہو رہا ہے۔ جس کے مطابقDemocideکسی بھی شخص یا لوگوں کا ان کی حکومت کے ذریعے قتل ہے۔ جس میں نسل کشی، سیاسی قتل، اور اجتماعی قتل شامل ہیں۔ ڈیموسائیڈ ضروری نہیں کہ پورے ثقافتی گروہوں کا خاتمہ ہو بلکہ ملک کے اندر ایسے گروہوں کو ختم کیا جائے جن کو حکومت سیاسی وجوہات کی بناء پر اور مستقبل کے دعویٰ کردہ خطرات کی وجہ سے ختم کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔سات اکتوبر سے اب تک اسرائیل اور اس کی فوج کی لڑائی تو حماس سے ہے اور اس کا دعوی بھی یہی ہے مگر اس کی آڑ اس فوج نے آج تک اکیس ہزار سات سو اکتیس افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ہمارے نزدیک وہ تمام شہدا میں شامل ہیں ان میں آٹھ ہزار چھ سو ستانوے عورتیں اور چار ہزار چار سو دس معصوم بچے شامل ہیں۔سوشل میڈیا پر ان شہید بچوں کی وڈیوز وائرل ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ڈی ایف( اسرائیل کی فوج ) کا ہدف محض حماس کے جنگجو نہیں ان کا مقصد نسل کشی ہے جس میں کسی مرد کسی عورت اور کسی بچے کی تخصیص نہیں۔ دنیا میں جنگ کو بھی کسی قاعدے قانون کا پابند بنایا گیا ہے۔1864 میں کمیٹی آف ریڈ کراس کی تشکیل ہوئی تھی جس کی بنیاد پر جنیوا کنونشن کی منظوری ہوئی تھی۔سات اکتوبر سے لے کر آج تک مغرب بالخصوص امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے اس کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے اور کسی قانون اور ضابطے کو نہیں مانا ہے۔سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی وہ قراداد جس کو امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا اس کے اخلاقی پہلو پر تو بات ہو سکتی ہے اس کے اختیاراتی پہلو کو بھی چیلنج کیا جانا چاہیے مگر جنیوا کنونشن کی پابندی تو ہر ملک پر لازم ہے۔اس سلسلے میں اقوام ِمتحدہ موقع بموقع دنیا کے تمام ممالک کو آگاہ بھی کرتا ہے۔ عالمی دانشوروں کی کثیر تعداد اور سول سوسائٹی اس قدر تباہی کے خلاف ہم آواز ہے مگر وطن ِعزیز کے بعض کج فہم دانشوروں کی تان اس بات پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ فلسطین اور حماس کو سات اکتوبر کی کاروائی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ہمارا نقطہ ِنظر بہت واضح اور سادہ اور مبنی پر انصاف ہے کہ حماس کا بدلہ اس کی فوج یا ملیشیا سے لیا جائے۔بیس بائیس لاکھ آدمیوں کے" ملک" کو تباہ کر دینا اور پانچ ہزار سے زیادہ معصوم بچوں کی جان لینا کس قانون اور دانشوری میں لکھا ہے۔انہی سالوں میں ہم نے حلب کی تباہی اور روہنگیا کے مسلمانوں کی دربدری اور ان کی بستیوں کی مسماری مشاہدہ کی ہے۔ یہی کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہا ہے۔بوسٹن میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے قانون کے پروفیسر بالاکرشنن راجگوپال نے گارڈین کو بتایا کہ ایسی کی جانے والی دشمنیوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ منظم طریقے سے شہریوں کی رہائش اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ اور نقصان پہنچائیں گے۔ جس سے ایک پورا شہر جیسا کہ غزہ شہر شہریوں کے لیے ناقابل رہائش ہو جائے گا۔جنوبی افریقہ اور سپین کا بہادرانہ موقف مسلم ممالک سے کہیں زیادہ واضح ہے اسی لیے ان دو ممالک سے اپیل کی جا رہی ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ اور اسپین بالکل وہی کریں جو انہوں نے بھوک کے حوالے سے کیا تا کہ تحفظ کے خلا کو دور کیا جا سکے اس بات کو یقینی بنائیں کہ غزہ میں مکانات کی بڑے پیمانے پر تباہی کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے۔ غزہ ہمارے صوبہ پنجاب کے کسی دور افتادہ ضلع جتنا علاقہ ہے اور اتنی ہی آبادی ہے جسے موجودہ دنیا کی سب سے زیادہ جدید اسلحے سے لیس فوج کا سامنا ہے۔ ویسے ہی اس قدر بڑی فوج کا مقابلہ کرنا مشکل ہے چہ جائیکہ اسے کسی قانون کسی ضابطے کی بھی پروا بھی نہ ہو اور اس کی پشت پر دنیا کی بڑی طاقتیں بھی کھڑی ہوں۔غزہ کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے جلیانوالہ باغ کی مثال سب سے زیادہ موزوں اور برمحل ہے۔اسرائیل کا رول اس وقت وہی ہے جو جنرل ڈائر کا تھا۔غزہ ایک جلیانوالہ باغ ہے جہاں نہتے لوگوں کا ہجوم ہے اور اس باغ سے باہر نکلنے کے سارے راستے بند ہیں۔غزہ ویسے بھی ایک پٹی ہے ایک لکیر سی ہے جو بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے اس کے تینوں طرف اسرائیل اور آخری جانب ہے سمندر ہے۔فلسطینیوں کو اس علاقے میں بند کر دیا گیا ہے کہیں کوئی کوئی نکلنے کی راہ نہیں۔ایک رفح کی سرحد ہے جو مصر کی طرف کھلتی ہے اور وہیں سے عالمی تنظیموں کی طرف خوراک کے ٹرکوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔باقی سارا علاقہ جلیانوالہ باغ کی طرح بند ہے۔اسرائیل جنرل ڈائر کی طرح بدسرشت اور منتقم مزاج بھی ہے۔نیتن یاہو اس جنرل سے بھی زیادہ مسلح ہے اور اسے روکنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔جلیانوالہ میں بہت کم لوگ بچ پائے تھے غزہ بھی اسی ڈومی سائیڈ کا نشانہ ہے کہ ڈائر کی کسی کا ڈر نہیں تھا کہ اس کے پیچھے اس وقت کی عظیم فوجی طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی کھڑی تھی اور نیتن یاہو کے پیچھے اس سے بھی تکبر اور ظلم سے بھری فوجی طاقت امریکہ موجود ہے۔