سیاسی تعصبات میں غرق سیاست اور صحافت کو کچھ یاد ہے کہ ایک کشمیر ہوتا تھا؟کیا کسی کو کچھ خبر ہے کہ قانون سازی کے نام پر بھارت مقبوضہ وادی کے زمینی حقائق میں کیسی سنگین تبدیلیاں لا رہا ہے اور یہ اس خطے کے مستقبل کے لیے کتنی تباہ کن ہو سکتی ہیں؟ امریکہ سے شائع ہونے والے فلسطین کرانیکل کی ایک رپورٹ پڑھ رہا ہوں۔ یہ شمارہ انگریزی ، فرانسیسی اور اطالوی تین زبانوں میں شائع ہوتا ہے اور مقبوضہ فلسطین کی حقیقی صورت حال سے آگہی کا ایک معتبر ذریعہ ہے۔ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو ’ جنوبی ایشیاء کا فلسطین‘ بنا دیا گیا ہے۔اور پھر ایک ایک کر کے ان بھارتی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جو اسرائیلی فسطائیت سے مماثلت رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس طریقے سے فلسطین میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کیے ، انہیں بے دخل کیا ، ان سے زمینیں چھینیں ، شہریت کے قوانین کے ذریعے ان کا استحصال کیا ، انہیں در بدر کر کے بکھیر دیا ، ان کی جائیدادیں ہتھیا لیں ، نوآبادیاتی طرز پر ریاستی زمین کے اصول کے نام پر انہیں اپنی ہی سر زمین پر محکوم بنا دیا ، بالکل اسی طرح اسی طرز پر بھارت کشمیر میں اسرائیلی فار مولے کے تحت اس کی مشاور ت اور اعانت سے کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے۔چنانچہ اس واردات کے تناظر میں فلسطین کرانیکل نے مقبوضہ کشمیر کو ’ جنوبی ایشیاء کا فلسطین‘ قرار دیا۔ پچھلے چند سالوں میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور ریاستی زمین پر قبضے کرنے کے لیے قانون سازی کی آڑ میں ایسی خوفناک جارحیت کی ہے، جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ سوائے مقبوضہ فلسطین کے جہاں اسرائیل بھی اسی طرز فسطائیت کو لے کر چل رہا ہے۔قابل غور پہلو یہ ہے کہ بھارتی قانون سازی کا یہ رجحان بھی اسرائیلی خطوط پر کھڑا ہے اور اس کی مشاورت بھی اسرائیل سے کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں سری نگر کی شیر کشمیر یونیورسٹی میں اسرائیلی وفد کا دورہ اس سلسلے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر چہ اس دورے کی شان نزول تو یہ بیان کی گئی کہ یہ وادی میں زراعت کے امکانات کے فروغ کے سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کا حصہ ہے لیکن اس واردات کی حقیقت بھارت کے امریکہ میں تعینات ڈپلومیٹ نے بیان کر دی ہے۔ الجزیرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر ’ ویسٹ بنک فارمولے‘ کے تحت کام کر رہا ہے۔ یعنی جس طریقے سے فلسطین کے مغربی کنارے میں اسرائیل نے فلسطینیوں سے زمین چھین کر آباد کاری کی ، اسی طرح اب بھارت اور اسرائل مل کر مقبوضہ کشمیر میں اسی فارمولے کے تحت مسلمانوں کے ساتھ کرنے جا رہے ہیں۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے اپنے حاضرسروس سفارتکار کے اس بیان کی تردید تک نہیں کی۔ جموں کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ اسی واردات کا پہلا باب ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو نئی حلقہ بندیاں کر رہا ہے اس کا مقصد بھی یہی کہ مسلمانوں کی اکثریت کو کم اور بے معنی کر دیا جائے۔ جموں پر عنایات کی جا رہی ہیں اور وادی اور سری نگر کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کیونکہ جموں میں غیر مسلم آبادی زیادہ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں24 سیٹیں آزاد کشمیر کے نام پر بھی رکھی گئی ہیں اور یہ تمام سیٹیں جموںکو دے دی گئی ہیں۔ فارمولا یہ ہے کہ یہ سیٹیں ان سکھ اور ہندوئوں کو دی جائیںگی جو آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر گئے ہیں۔ یعنی کھڑے کھڑے جموں کی 24 نشستوں میں اضافہ کر دیا ہے تا کہ مسلمانوں کا قانون سازی میں استحصال کیا جا سکے ۔ جموں میں آر ایس ایس کا گڑھ قائم ہو چکا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تربیتی مرکز بھی یہیں ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کا سب سے زیادہ قتل عام جموں میں ہی کیا گیا تھا۔ٹائمز آف لندن کے مطابق 2 لاکھ 73 ہزار لوگ مارے گئے۔ آئن سٹیفن اپنی کتاب ’ ہارنڈ مُون ‘ کے صفحہ 183 پر لکھتے ہیں کہ دو لاکھ لوگ قتل ہوئے۔ آٓکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی کتاب ’ انڈر سٹینڈنگ کشمیر اینڈ کشمیریز‘ میں سنیڈن کرسٹوفر نے مقتول مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ بتائی ۔اس قتل عام کا اعتراف ’ دی ہندو‘ کے رپورٹر لُو پوری نے اپنی کتاب ’ اکراس دی لائن آف کنٹرول‘ میں بھی کیا ہے اور یہی گواہی ’ کشمیر لائف ‘ میں وید بھیسن نے بھی دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یوں لگتا تھا شہر میں کرفیو صرف اس لیے لگایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا اہتمام سے قتل عام کیا جا سکے۔سڑکوں پر مسلمانوں کی لاشوں کے انبار پڑے تھے۔ اسی جموں میں آج آر ایس ایس کے جتھے مجتمع ہو رہے ہیں۔ اسی جموں کو انتخابات میں برتری دلانے کے لیے 24 سیٹیں اضافی دی جا چکی ہی۔ یہی نہیں بلکہ حلقہ بندی کے نام پر وادی کی سیٹیں کم کی جا رہی ہیں اور جموں کی سیٹیں بڑھائی جا رہی ہیں۔زمیں ہتھیائی جا رہی ہیں۔ آباد کار لائے جا رہے ہیں ۔ یہ ساری واردات وہی ہے جو اس سے قبل اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور صحافت اس سب سے بے نیاز کیوں ہے۔مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون ناصر قادری کا ادارہ کشمیر لیگل فورم ، شاید واحد ادارہ ہے جو بھارت کی اس ’’ قانونی واردات‘‘ پر رپورٹس شائع کر رہا ہے۔یہ رپورٹس فلسطین کے اخبارات و جرائد میں بھی زیر بحث آ جاتی ہیں لیکن پاکستان میں نہ اہل صحافت اس پر توجہ دیتے ہیں نہ پارلیمان ۔ اس ایک سال ہی کو دیکھ لیجیے۔ کتنے ٹاک شوز اس بات پر ہوئے کہ بھارت مقبوضہ وادی میں کیا کر رہا ہے؟ سارا دن ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر اودھم مچا ہوتا لیکن کیا پورے سال کے چوبیس مہینوں میں کشمیر کو چوبیس گھنٹے بھی دیے گئے؟ کیا پارلیمان میں کسی جماعت کے کسی پارلیمنٹیرین نے اس انسانی المیے پر کوئی بات کی؟ گروہی اور سیاسی مفادات کا تقاضا ہو تو دنیا بھر میں لابنگ کر لی جاتی ہے لیکن کشمیر کے لیے لابنگ تو کیا کوئی بیان تک جاری کرنے کا تکلف بھی گوارا نہیں۔اہل اقتدارنے ایک رسم کے طور پر دو دن مختص کر رکھے ہیں ، انہیں رسمی طور پر منا لیتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کے باب میں سرخرو ہو جاتے ہیں۔ ایک تھا کشمیر،کیا کسی کو یاد ہے وہ کیا ہوا؟یاد رہے کہ بھارت کے یک طرفہ اقدامات سے کشمیر کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔بین الاقوامی قانون کے مطابق کشمیر آج بھی بھارت کا حصہ نہیں ہے اور اس کا فیصلہ حق خود ارادیت سے ہونا باقی ہے۔ لیکن ہم اتنے خاموش کیوں ہیں؟ہم اتنے لاتعلق کیوں ہو گئے؟یہ گونگا اور بہرہ پن کیوں،اور کب تک؟ ایک تھا کشمیر۔کیا کسی کو یاد ہے وہ کیا ہوا؟