فیروزُاللُغات اردو جدید کے صفحہ 351کے مطابق دھوکہ ایک مذکر لفظ ہے جس کے معنی غلط فہمی،دغااور فریب ہوتے ہیں ۔ دھوکے کے اس تعریف کے تحت ہم نے اپنی زندگی پر اس لفظ کے اثرات کو سمجھنا ہے تاکہ خود اپنے یاکسی کے دھوکے میں آنے سے بچا جاسکے ۔ زندگی میں آدمی خود کو زیادہ مرتبہ دھوکہ دیتا ہے اور دوسرے کے دھوکے میں نسبتاًکم آتا ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جو چیز اچھی لگے وہ آدمی کے نزدیک بہتر ہوتی ہے اور آدمی سب سے پہلے اسی دھوکے کا شکار ہو تا ہے جس کے تحت ہر اس چیز یا بات کو بہتر سمجھنے لگتا ہے جو اُسے اچھی لگتی ہے۔ اس صورت حال سے تضاد جنم لیتا ہے جو اکثر اوقات فسادکا رنگ دھار لیتا ہے۔ جس سے انسان کے بہترین مفاد کومدنظر رکھتے ہوئے منع فرمایا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ سمجھ کی کسوٹی اپنی دل لگی کو بناناخود فریبی ہوتاہے جس کا شکار تقریباًسبھی لوگ یکساں طور رہتے ہیں ۔ دراصل بھلائی اور نقصان دونوں واضح کم اور پوشیدہ زیادہ رہتے ہیں اور آنکھوں سے کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں باقاعدہ شناخت کرنے کے لئے آدمی کو پوشیدگی کے پردوں کو چاک چاک کرنا پڑتا ہے۔ آدمی کی یہی صلاحیت اسے اشرف المخلوقات بناتی ہے تاکہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے چیزوں کے اردگردلپٹے ہوئے بے شمار پردوں اور غلافوں کو ایک ایک کرکے ہٹالے اور اصلی شئے تک رسائی حاصل کرلے۔ اس رسائی کا سبق اللہ نے سکھانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے تاکہ آدمی گھاٹے میں نہ رہے ۔ یونانیوں نے پیغمبروں کی راہ اپنا نے کی بجائے اپنے طور پر چیزوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کی جو اپنے آخری تجزئیے میںدور رس کامیابیوں کی حامل ہونے کے باوجود پیغمبروں کی حقیقت شناسی کے عمل سے زیادہ بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ یہ بات انسان کی بوسینا ، غزہ ،کشمیر اور دیگر جگہوں پر جاری قتل وغارتگری کی تازہ ترین مظالم سے ثابت ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود لوگ خوش ہیں کہ ترقی ہورہی ہے ، یہ دھوکہ ہے۔ جب لوگ کمینے لوگوں کو اپنے سے بڑا سمجھنے لگ جائیں،چاہے مجبوری سے یا خوشی سے دھوکے کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔ دھوکہ کبھی پائیدار نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر پائیدار ہوتا تو دھوکہ نہ ہوتا۔ دھوکہ ہمیشہ وقتی ہوتاہے اس لئے کہ آفاقیت سے محروم ہوتاہے۔ سچ میں پائیداری ہے یہی اس کی پہچان ہے ۔ دھوکے کا منبع خود آدمی ہے۔ حیوانات ، جمادات اور نباتات کے اندر دھوکہ نہیں ہوتا لہذا وہ دھوکے کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ آدمی دھوکہ دینے اور دھوکہ کھانے پر بالکل بااختیار ہے ۔اس لئے مسلسل دھوکے کا شکار ہے۔ اس بات کو مزید کھولا جائے تو معلوم ہوگا کہ روشنی اور تاریکی ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود دھوکہ نہیں ہیں۔ اس لئے کہ دونوں قدرت کی طرف سے ہیں جبکہ سچ دھوکہ نہیںاور جھوٹ دھوکہ ہے ۔غرور دھوکہ ہے جبکہ عاجزی دھوکہ نہیں ہے۔ ریاکاری دھوکہ ہے جبکہ خلوص دھوکا نہیںہے ۔ جہالت دھوکہ ہے لیکن علم دھوکہ نہیں ہے ۔ کفر دھوکہ ہے لیکن ایمان دھوکہ نہیں ہے ۔کیوں؟ اس لئے کہ سب کائنات کے ایک اور لاشریک مالک کی طرف سے واضح کردہ ہیں ۔ ذرا مزید آگے بڑھیں تو معلوم ہو گا کہ پتلون پہنا دھوکہ نہیں ہے ڈائینگ ٹیبل پر چھری کانٹے سے کھانا کھانا دھوکہ نہیں ہے لیکن دستر خوان پر ہاتھ سے کھانا کھانے کو گھٹیا سمجھنا دھوکہ ہے ۔ افسر بننا دھوکہ نہیں ہے لیکن ا فسر بن کر بھول جانا کہ خدا نے انسان پیدا کیا تھا۔ دھوکہ ہے اسی طرح مسلمان ہونا دھوکہ نہیں ہے لیکن مسلمان ہو کر خدا سے نہ ڈرنا بہت بڑا دھوکہ ہے جس طرح آدھا سچ دھوکہ ہوتاہے اور پورا سچ دھوکہ نہیں ہوتا اسی طرح اپنی اوقات میں رہنا دھوکہ نہیں ہوتا اور اوقات سے باہر ہوجانا سراسر دھوکا ہے۔ دھوکے کے اندر قدرت نے بے پنا ہ طاقت رکھ چھوڑی ہے۔ عقل سے زیاد ہ طاقت دھوکے کے اندر رکھی گئی ہے۔کیونکہ دھوکہ علم او رعقل دونوں کو کھا جاتاہے ۔ سب سے زیادہ عقلمند لوگ ہی خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور خود کو وہ سمجھتے ہیں جو وہ نہیں ہوتے اور یہی دھوکہ ہے۔ عالم جب اپنے آپ کو واقعی عالم سمجھنے لگ جائے تودھوکے کی گرفت میںآجاتاہے ۔ دھوکے کی شناخت گھاٹے سے بچاسکتی ہے۔ دعا کروکہ دھوکے کو پہچان سکو۔ بڑے بڑے لوگ زندگی بھر دھوکے میں رہے لیکن اسے پہچان نہ سکے۔ اس لئے اچھی اچھی باتوں کے نام پر بر ے برے کام کرتے رہے ۔ نہیں جان پائے کہ محبت دھوکہ ہوتی ہے عشق دھوکہ نہیں ۔ مد د کرنا دھوکہ نہیں لیکن لالچ میںجان دے دینا بھی دھوکہ ہوتی ہے۔پیار کرنا دھوکہ نہیں لیکن کیدو بننا دھوکہ ہے۔ اولاد کی معقول تربیت کرنا دھوکہ نہیں لیکن اولاد کو باپ بنا لینا دھوکہ ہے۔ زندگی دھوکہ نہیں لیکن صرف اپنے لئے گذارنا دھوکہ ہے۔ موت دھوکہ نہیں لیکن موت سے ڈرنا دھوکہ ہے اور وہ زندگی تو سراسر دھوکہ ہوتی ہے جو موت سے ڈر ڈر کر گذاردی جائے۔حق کے اندر بھی باطل ہوتاہے اور باطل کے اندر بھی حق۔ حق کے اندر باطل دھوکہ ہوتا ہے اور باطل کے اندر حق دھوکہ ہوتاہے۔ بے شمار دنیوی اور دینی مسائیل حل ہوسکتے ہیں اگر حق کے اندر باطل کی پہچان ہوجائے اور باطل کے اندر حق کی ۔ آج دنیا سنورسکتی ہے اگر خدا وند کریم جس نے حق کو باطل سے جد کرکے رکھا ہے وہ حق کے اندر باطل کو بھی بے نقاب کرنے کی توفیق عطا فرمادے ۔تاکہ باطل کے اندر حق کی شناخت بھی ہوسکے ۔ تاریخ انسانی اگر ہر دور میںدھوکے میںرہی ہے تو اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ حق وباطل کی آمیزش تھی جو آج بھی جاری ہے۔ حق وباطل کی ملاوٹ نے زندگی اجیرن کرکے رکھ چھوڑی ہے۔ حدیث مبارک کا’’دانائی کی بنیاد خوف خدا ہے‘‘ والا فرمان خالص حق کو خالص باطل سے جدا کرنے کی سمجھ میںپوشیدہ ہے۔ مسلمان کے لئے یہ سمجھ لازم ہے خاص کر پاکستان کے مسلمان کے لئے اس کا سمجھنا زیادہ لازم ہے ۔ پاکستان کا بدنصیب مسلمان تو وطن ہوتے ہوئے بھی غریب الوطن ہے کیونکہ اس کو راستے میں خبر ملی ’’کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘ ۔ آدمیت تاریکی کی اتھا ہ گہرائیوں میںگھری ہونے کے باوجود گذشتہ صدیوں کے مقابلے میںدینی واقعات اور معجزات کا زیادہ ادراک رکھتی ہے۔ قران سے آگاہی نے یہ صاف صاف سبق ایک نئے اور جدید ترین ڈھنگ سے ثابت کردیا ہے کہ دھوکے پر فتح صرف خوف خدا سے ہی ممکن ہے ۔ حق اور باطل کی آمیزش کا ادراک بھی خوف خدا سے ہی ہوسکتاہے جو دھوکے کو پٹخ کر رکھ دیتا ہے تاکہ پتہ چل جائے کہ عبادت پر مغرو ر حق کے اندر باطل کا تابع ہوتا ہے اور شیطان کہلاتا ہے اور مسلمان کو شیطان سے پنا ہ ماننگے کا حکم ہے ۔ دھوکے سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ خداہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین