ہمیں ترقی یافتہ دنیا سے سیکھنا ہوگا۔ ہمارے ہمسایہ روس، چین اور بھارت ایسے ممالک ہیںجوآج درآمدکنندگان سے برآمد کنندگان بن چکے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ متاثر کن منصوبہ بندی روس کی ہے جس نے مارکیٹ پر مبنی منصوبہ (Market Oriented Model)اختیار کیا ۔روس آج سے تین دہائیاں قبل اپنی غذائی ضروریات پو ری کر نے کے لئے گندم درآمد کر رہا تھا جب صدر پوتن نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر اناج کی درآمدکے متبادل تلاش کئے جائیں اور جلد ہی یہ لائحہ عمل اناج کی برآمدت کے لئے پیداوار میں اضافہ کی طرف منتقل ہو گیا۔ اس کے لئے فوری طور پر فارم میکانائزیشن، زرعی تحقیق، بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے میں نجی سرمایہ کاری کو ترجیح دی گئی۔ جس کے نتیجہ میں گندم کی پیداوار30 ملین ٹن سے بڑھ کر 2010 تک60 ملین ٹن تک پہنچ گئی جبکہ دس برس قبل تک درآمدات کا بوجھ پانچ ارب ڈالر سے زائدتھا ۔ 2017-18 تک روس 41 ملین ٹن سے زائدگندم برآمد کر کے ، امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ،دنیا کا سب سے بڑابرآمد کنندہ بن چکا تھا۔امسال روس کی گندم کی پیداوار 46 ملین ٹن سے زیادہ کی برآمدات کے ساتھ 91 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہیں۔ گندم کے حوالے سے یوکرائن کی کارکردگی بھی کافی متاثر کن ہے ۔یوکرائن دنیا کی تقریباً تیس فیصد ’کالی مٹی‘ کا گھر ہے، جو غذائی اجزاء سے بھرپور اور زراعت کے لیے موزوں ہے۔ لیکن یوکرائن میں رائج سوویت اقتصادی نظام اس کالی مٹی کی پوری صلاحیت سے استفادہ نہیں کر سکا تھا۔کسانوں کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کی تحریک2005 میںعالمی ادارہ برائے تجارت میں شمولیت کے ساتھ شروع ہوئی جب یوکرائن نے اپنے زرعی شعبے کو عالمی منڈیوں سے جوڑنا شروع کیا۔زراعت میں ترقی کے لئے نجی شعبے کی قیادت میں لائحہ عمل کو ترجیحی بنیادوں پر اختیار کیا ۔مقامی اور بین الاقوامی غلہ کے تاجروں کو تجارت اور لاجسٹکس کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مدعو کیا۔ جس میں گودام کی رسیدوں کے نظام کے ذریعے قرضوں کے لیے اناج کی مضبوط ضمانت شامل تھی۔ اس سے کسانوں اور کاشتکاری کے اداروں کو اپنی گندم کی پیداوار بڑھانے کی ترغیب ملی۔2006تک یوکرین 14ملین ٹن گندم پیدا کر رہا تھا ۔اگر پاکستان سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی پیدوار اس وقت یوکرائن سے 30فیصد زائد تھی جو لگ بھگ 21ملین ٹن تھی ۔ 2021 تک یوکرین اپنی گندم کی پیداوار کو 32ملین ٹن سے زیادہ کرنے میں کامیاب ہو چکاتھا جبکہ پاکستان اس سال صرف 27 ملین ٹن تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکا۔مزید حیرت یہ ہے کہ صرف 15برس کی قلیل مدت میں فی ایکڑ پیداوار میںاضافہ 80 فیصد تھا ، جبکہ گندم کے زیر کاشت رقبہ میں اضافہ صرف 30 فیصد ۔ ہمارے چند تجزیہ کار مناسب منصوبہ بندی کے برعکس اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ آخر ہمیں گندم کاشت ہی کیو ں کرنی ہے، ہم گندم کے بہترین متبادل تلاش کریں جن سے زرِمبادلہ بھی کمایا جا سکے ۔لیکن یہ ایک غیر مناسب تجویز ہے، ایسے میں جب صرف ہماری ہی نہیں گندم اس وقت دنیا بھر میں دوسری سب سے بڑی خوراک ہے۔ مزید یہ کہ گندم اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تجارت والا اناج بھی ہے ۔سو درست طریق یہ ہو گا کہ ہم ایسے اقدامات کی جانب توجہ دیں جن سے ناصرف اپنی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب ہوں بلکہ پوری دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہو ئی آبادی کی غذائی ضروریا ت پوری کر کے بھی زرمبادلہ کمائیں ۔ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح مسائل پیدا کررہی ہے۔ تاہم، یہ مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن کے نتیجے میں بلوچستان اور سندھ کے کچھ بنجر علاقوں میں زیادہ بارش کی وجہ سے گندم کے ممکنہ رقبے میں اضافہ ہوا ہے۔ نسبتاً معمولی سرمایہ کاری کے ساتھ، مثال کے طور پر، پانی کو ذخیرہ کرنے (چھوٹے ڈیموں) اور پانی کو پھیلانے والی ٹیکنالوجیز سے یہ علاقے مون سون کے بعد کی بقایا نمی سے گندم کی مناسب فصل حاصل کر سکتے ہیں۔ہمارے پیداواری نظام میں نسبتاً آسان تبدیلیوں، جیسے کہ کم کھیتی، تصدیق شدہ بیجوں کے استعمال میں اضافہ، سیڈ ڈرلز کا استعمال، کھاد اور مٹی کے درمیان بہتر جوڑ، اور مائیکرو نیوٹرینٹس کے استعمال کے ذریعے پیداوار بڑھانے کی بڑی گنجائش ہے۔پاکستان کے ترقی پسند کسان 45 من فی ایکڑکے قریب پیداوار حاصل کررہے ہیںجبکہ اوسط پیداوار 31من کے قریب ہے ۔یعنی 14من کا خلاء ہے جو مناسب منصوبہ بندی سے پر کیا جا سکتا ہے ۔ اگرہم پاکستان کی اوسط پیداوار کو صرف32 من فی ایکڑ تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیںتو اس سے گندم کی سالانہ درآمد کو ختم کیا جا سکتا ہے،اگر فصل کی کٹائی اور سٹوریج کو بہتر بنا لیا جائے تواسی سے اتنی مقدار بچ جائے گی کہ ہمیں گندم درآمد نہ کرنی پڑے۔ اور اگرہم اپنی اوسط پیداوار کو ترقی پسند کسان کی پیداوار تک بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں تو صرف گندم کی فصل سے حاصل ہونیوالے زرمبادلہ کا اندازہ اربو ں ڈالر میں ہو گا ۔یہ وہ تمام ممکنہ حل ہیں جو ہر زرعی فہم رکھنے والا جانتا ہے مگر ان سب کو حقیقت میں بدلنے میں مسلسل ناکامی ، اداروں کی استعداد یا نظام کی کمزوری دونوں کو پوری شدت سے آشکار کر رہی ہے ۔ شعبہ توسیع زراعت کے اتنے بڑلے عملہ کی موجودگی اور کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ آخر وہ جدید طریقہ ہائے کاشت کے بارے میں ہمارے کسان کی کیا رہنمائی کر رہے ہیں۔بہرحال زراعت کے مکمل نظام کو اور خصوصی طور پر گندم کے نظام کو اصلاح کی شدید ترین ضرورت ہے بصورت دیگر یہی بلند قیمتیں ، آٹے کے بحران اور چھوٹے کاشتکار کے نام پر ثمرات سمیٹتے جاگیرداروںکے ساتھ یہ نظام لڑکھڑاتا ، رینگتا آگے بڑھتارہے گا ، ایک مضبوط اور خوشحا ل زرعی مستقبل کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ (ختم شد)