ریاست جموں و کشمیر کا ہر شہری سوچتا ہے کہ وہ صدیوں سے غلام ‘ صدیوں سے محکوم و مجبور و فقیر ہے ۔گزشتہ پون صدی سے تو زیادہ ہی مجبور ہوئے کہ پاکستان سے محبت اور الحاق کا گہرا زخم کھا کر بھی پاکستان کے ساتھ شامل نہ ہو سکے اور اب مختلف آپشنز کی زد میں ہیں ۔ان کے آبائو اجدادناتمام حسرتوں کے ساتھ تہہ خاک جا سوئے ۔ کتنے تھے جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ لاکھوں بندی خانوں میں زندگی گزار آئے ۔ برسوں تک بزدلی کا طعنہ سہتے رہے کہ کشمیریوں کی طبیعت میں کبھی رزم آرائی نہ تھی ۔ تیس سال قبل جب احتجاج کے تمام راستے بند پا کر اہل کشمیر نے اپنا حق چھیننے کا فیصلہ کیا تب سے ایک دنیا حیران ہے۔تین عشروں میں ملت کشمیر نے جرات و بے باکی کی لازوال داستانیں رقم کیں ۔ خواتین ‘جواں ‘بوڑھے اور بچے لہو کے چراغ جلانے لگے ۔ چالیس برس تک یہاں کے مسلمان کشمیر کے دونوں حصوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں یادادشتیں پیش کرتے اور اس عالمی ادارے کی بے حسی اور بے بسی کا ماتم کرتے رہے ‘ اقوام عالم کو یاد دلاتے رہے کہ انہوں نے اپنی قرار دادوں کے ذریعے اہل کشمیر کو ان کا حق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ ان قراردادوں کو زمین کھا گئی ‘ آسمان نگل گیا ۔ گزشتہ بہتر برسوں سے یہ معمہ حل نہ ہوا ۔ بچپن سے پڑھتے ‘ سنتے تھے کہ آزاد کشمیر کے حکمران اور سیاست دان مسئلہ کشمیر کو ’’ اٹھانے ‘‘ کے لیے بیرون ملک سرکار کے خرچ پر سفر کرتے ہیں ۔ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک مرتبہ ایک بزرگ سے پوچھا … آخر یہ مسئلہ کہاں بیٹھا ہوا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اتنی جدوجہد کے بعد بھی ’’اٹھ ‘‘ نہیں رہا ۔ جواباً ہنس کر کہنے لگے …’’ اقوام متحدہ میں۔‘‘یوں ہمارے اندر بھی خواہش پیدا ہوئی کہ جب ہم بڑے ہو ں گے، خود اقوام متحدہ میں جا کر مسئلہ کشمیر کو ’’اٹھائیں ‘‘ گے ۔آخر کتنا وزنی ہوگا؟ ہم جوان ہوئے تو معلوم ہوا آزاد کشمیر کا حکمران بننا ہمارے بس کی بات نہیں اس کے لیے بڑے ’’ پاپڑے ‘‘ بیلنا پڑتے ہیں ۔کشمیر کے مسئلے کو ’’ اٹھانے ‘‘ کے لیے ہم نے اقوام متحدہ جانے کی نیت چونکہ بچپن ہی سے کر رکھی تھی اس لیے ’’ سرکاری خرچ ‘‘ نہ ملنے کی وجہ سے ایسا کرنا کبھی ممکن نہ ہوا ۔ کچھ سال پہلے جب ہم نیو یارک میں تھے اپنے میزبان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔’’ حضور ! ہم اقوام متحدہ جانا چاہتے ہیں ؟‘‘ ’’ کیوں خیریت ؟‘‘ انہوں نے نیم وا آنکھوں سے ہمیں دیکھا ۔’’ مسئلہ کشمیر اٹھانا چاہتے ہیں ۔‘‘ ہم نے مذاقاً کہا تھا لیکن ایسے لگا جیسے میںنے ناخنوں سے ان کا زخم کرید ڈالا ہو۔ چیخ کر بولے ’’ تم کشمیری احمقوں کی جنت میں رہتے ہو ‘ تمہارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو میں اپنی آنکھوں سے یہاں عشروں سے آتے جاتے ‘ بندر کی طرح ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر چھلانگیں لگاتے دیکھ رہا ہوں ۔انہیں بھیک مانگنے کی عادت پڑ چکی ہے ۔ زندہ قومیں آزادی کی بھیک نہیں مانگتیں ۔ کروڑوں اربوں ڈالرز تم لوگوں نے امریکہ اور برطانیہ کے دوروں اور احتجاجی مظاہروں پر خرچ دیے ‘ لیکن چند نوجوانوں نے اپنے لہو سے فتح مبین خرید لی ۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ سے بھیک مانگتے ہوئے تم لوگوں کو شہیدوں کے لہو کا پاس نہیں۔ فضول امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تم لوگوں نے ۔ تمہارے ہاں کون سے تیل کے کنویں ہیں کہ اقوام متحدہ حرکت میں آئے گی ۔ اقوام متحدہ امریکہ کی لونڈی ہے‘ یہ چند چرب زبانوں کے حقوق کی محافظ اور چند متمول ملکوں کے احکام کی پابند ہے ۔‘‘ ہم اس وقت تک اس عالمی ادارے سے بہت توقعات رکھے ہوئے تھے ۔ بوڑھے میزبان کی باتوں نے ہمارے اندر آگ بھر دی تھی۔ ہماری آنکھوں میں شعلے نہ اترے ‘سرد ہوائوں نے آنکھوں سے آنسو ضرور نکال دیے تھے جن میں کہیں کہیں ہماری بے بسی بھی شامل ہو گئی تھی ۔ ہم نے بحیرہ اوقیانوس کے کنارے کھڑی اس فلک بوس عمارت کو گھورا‘ اس کے دامن میں لہراتے دنیا بھر کے رنگا رنگ پرچموں کو دیکھا اور اس بے حس ‘ بد نصیب ‘ گونگے ‘ بہرے اور کٹھ پتلی ادارے کی کارکردگی پر افسوس کر کے رہ گئے ۔میں نے سوچا کاش! اس انجمن کا تصور پیش کرنے والا آج زندہ ہوتا اور سمندر کی ٹھنڈی ہوائوں کے مقابل کھڑا کر کے اس سے پوچھتا۔ ’’ اسے بد نصیب انسان تم نے اقوام متحدہ بنا کر بڑی طاقتوں کے تصرف میں دے دی ۔ ہر فرد کو زندہ رہنے اور جان کی حفاظت کا حق حاصل ہوگا ۔کسی بھی شخص کو نہ غلام بنایا جا ئے گا اور نہ محکوم رکھا جائے گا۔کسی بھی شخص کو تشدد ‘ ظلم و ستم غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا ۔اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر کرٹ والڈ ہائیم نے اقوام متحدہ کے بارے میںلکھا ہے ۔ ’’ ۱۹۴۵ء میں جب سے سان فرانسسکو میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تب سے ہم ایک غیر معمولی دور سے گزر رہے ہیں اور اقوام متحدہ کا یہ ادارہ بھی بنی نوع انسان کی ان نئی اولیتوں اور ضرورتوں کی عکاسی کرتا ہوا بہت زیادہ بدل گیا ہے ‘ اس میں شک نہیں کہ اس ادارے کی طاقت کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ اس میں نئے حالات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کہاں تک صلاحیت ہے ۔ آیا یہ ادارہ دنیا کو در پیش مسائل کا موثر حل پیش کر سکتا ہے یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔اگر یہ ادارہ اپنے منشور پر عمل نہ کرا سکا تو یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہوگی۔‘‘ ڈاکٹر کرٹ والڈ ہائیم کو خبر ہو کہ وہ سوالیہ نشان اب تک سوالیہ نشان ہی ہے ۔اس ادارے نے اپنے ہی منشور کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔یہ وہ باڑ ثابت ہوئی جس نے اپنی ہی فصل کھا لی ۔۱۰دسمبر ۱۹۴۸ء کو عالمی منشور کی حیثیت سے پیش ہونے والا اس کا چارٹر طاقت والوں کے لیے منفعت بخش ثابت ہوا ۔ کمزور اور پسماندہ اقوام اس چارٹر کے بوجھ تلے دبتی اور پستی چلی گئیں ۔ آزاد پیدا ہونے والے انسانوں کو ان جیسے انسانوں نے غلام بنالیا ‘ رنگ و نسل ‘ چھوٹے بڑے ‘ دولت اور غربت کی بنیادیں ‘ ہوس ملک گیری نے بڑی طاقتوں کو کھلی چھٹی دے دی ۔ کہیں فلسطین‘ کہیں شیشان ‘ کہیں بوسنیا ‘ کہیں ویت نام ‘ کہیں الجزائر ‘ کہیں افغانستان ‘ کہیں کشمیر ‘کہیں عراق ‘کہیں ایران اس کی زد میں آتے چلے گئے۔ اقوام متحدہ کا تیس نکات پر مشتمل چارٹر عالمی غنڈؤں کا منشور بن کر رہ گیا ‘دنیا کی سب سے بڑی ٹریجڈی وقوع پذیر ہو چکی ہے ۔