راشد میری طرح گائوں زاد ہے۔ گزشتہ پینتیس برس سے امریکہ میں مقیم ہے‘ اپنی خو ُبدل سکا نہ روایات چھوڑ سکا ۔ ہمارا بچپن اکٹھے گزارا تھا اور بچپن کے بے شمار واقعات کی طرح اسے وہ واقعہ آج بھی یاد ہے ۔جس کا ذکر یہاں ہو رہا ہے ۔کشمیر کے دیہاتوں میں ستمبر اکتوبر میں گھاس کٹائی کا موسم ہوتا ہے ۔ جن گھروں میں مویشی زیادہ ہوتے ہیں، ان کے مالک زیادہ سے زیادہ گھاس کاٹ کر ذخیرہ کر لیتے ہیں ۔یہ وہ دن ہوتے ہیں جن کے بارے میںپہاڑی علاقوں میں یہ مقولہ عام ہے کہ اس موسم میں کسی کی ماں فوت ہو گئی تھی تو اس نے اسے ’’ کلہوٹے ‘‘ ( اناج ذخیرہ کرنے والا ) میں بند کر کے رکھ دیا تھا یہاں تک کہ گھاس کٹائی سے فارغ ہوا اور ماں کی تجہیز و تکفین کرائی ۔ اس زمانے میں ہر فرد اس دوڑ میں ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گھاس کاٹ کر جمع کر لے ۔جن دہقانوں کے ہاں مویشی نہیں ہوتے وہ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہتے کیونکہ گھاس ذخیرہ کرنے کے بعد اسے مہنگے داموں فروخت کیاجاتا ہے ۔ اگرچہ ایسے افراد کی دیہی معاشرے میں زیادہ عزت نہیں ہوتی، جن کے ہاں مویشی نہیں ہوتے ‘ لوگ انہیں نکما تصور کرتے ہیں ۔وہ ہر ایک سے مانگ کر کھانے اور گھر گھر گھوم کر پیٹ بھرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ایسے میں کسی موٹی گردن والے چوہدری کی یہ حالت ہو تو وہ کمی کمینوں کے سامنے دبا دبا پھرتا رہتا ہے ۔ مویشیوں کے لیے جاڑوں کی خوراک کے ذخیرے کو ’’ گہاڑہ ‘‘ کہتے ہیں۔ دیہاتوں میں یہ گہاڑہ دراصل ہر زمیندار کی عزت اور وقار کا نشان بھی ہوتا ہے ۔ جس کا گہاڑہ بڑا اور مضبوط ہوگا وہ سر فخر سے بلند کیے رکھتا ہے۔ چھوٹے اور مریل گہاڑے غریب اور بے وسیلہ لوگوں کی علامت تصور ہوتے ہیں ۔ گہاڑے کی ’’ بے حرمتی ‘‘یا اس کے جل جانے کو عزت کی بربادی تصور کیا جاتا ہے۔گہاڑے کی تیاری ڈیزائن اور اس کے تنصیب کی جگہ بھی خاص ایشو ہوتا ہے ۔ گہاڑے تیار کرنے کے ’’ ماہرین ‘‘ دور دور سے بلائے جاتے اور ان کی مہارت کے چرچے کی نسبت بھی باعث تفاخر ہوتی ہے ۔ ان ماہرین کی نہ صرف نقد رقم سے ’’ خدمت ‘‘ کی جاتی ہے بلکہ ان کی گھی شکر کے ساتھ عزت افزائی بھی ہوتی ہے۔ راشد ہمارے گائوں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دوسرے گائوں میں رہتا تھا ۔ جس زمانے میں ہم مڈل سکول میں زیر تعلیم تھے ۔ راشد کے گائوں میں ایک انوکھا’’ بحران ‘‘پیدا ہوگیا۔ اس زمانے میں میڈیا اتنا طاقتور تو کیا تھا ہی نہیں ‘اس لیے ہفتوں بعد ایک گائوں کی خبر ساتھ والے گائوں میں پہنچتی تھی ‘لیکن یہ خبر تیزی سے پھیل گئی۔ ایک صبح راشد سکول آیا تو بجھا بجھا سا تھا۔اپنا بستہ زمین پر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ رات کو اس کے ماموں کے گہاڑے کو کسی نے آگ لگا دی تھی ۔ گہاڑے جلنے کے واقعات برسوں بعد سنے جاتے تھے یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی کو کسی عزیز کے قتل کی خبر دی جاتی ہے ۔ ہماری کلاس میںہر ایک اس ’’ سانحے ‘‘ پر افسوس کا اظہار کررہا تھا۔ راشد سے ’’ تعزیت ‘‘ کا سلسلہ جاری تھا کہ ہمارے استاد کلاس میں آ گئے۔انہوںنے ماتمی فضا کو خوشگوار کرنے کے لیے دو چار لطیفے سنائے لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا ۔ وہ تھک ہار کر کرسی پر جا بیٹھے اور ان کا چہرہ بھی بجھ گیا ۔ وہ دن بڑا سوگوار تھا۔ ہر کوئی گہاڑے کی آگ پر بات کر رہا تھا۔ اگلی صبح جو ہم سکول گئے تو ایک اور خبر منتظر تھی ۔رات کو راشد کا اپنا گہاڑہ جل گیا تھا ۔ آ ج اس کی کیفیت دیدنی تھی رو رو کر اس نے برا حال کر دیا ۔ دو دنوں میں دوواقعات ‘عزت و غیرت کے ’’ مراکز ‘‘ پر حملے تصور ہوتے تھے ۔ ہماری حوصلہ افزائی اس کے کچھ کام نہ آئی ۔ ماسٹر جی کی تھپکی اور پرسا بھی کارگر نہ ہوا تو راشد کو سکول سے چھٹی دے کر گھر بھیج دیا تا کہ وہ ’’ تعزیت ‘‘ کے لیے آنے والوں کو اٹینڈ کر سکے ۔راشد کے گائوں میں تیسرے دن تیسرا گہاڑہ جل گیا ۔ ارد گرد کے دیہاتوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اب لوگوںنے ٹھیکری پہرے کی طرف توجہ کی ۔جو لوگ پہرے پر لگائے گئے وہ نمبردار صاحب نے منتخب کیے۔ راشد کے موہڑے ( چھوٹا گائوں ) میں’’نمبر دار‘‘صاحب خود بھی رہتے تھے۔ نمبر دار صاحب خود کچھ نہیں کرتے تھے چار بچے سعودی عرب میں ’’حاجی ‘‘ بن کر ملازمت کر رہے تھے۔خود لوگوں کے ’’ ذاتی معاملات‘‘ میں دخل اندازی ‘ ہدیے ‘ تحائف وصول کرنا پنچائیتیں نمٹانا ‘ کمزوروں کودبانا اور گھر گھر گھوم کر رعب جمانا ان کا مشغلہ تھا۔ گائوں میں ان کی دولت اور طاقت کا رعب تھا‘لیکن مال مویشی نہ ہونے کی وجہ سے گائوں والوں کے نزدیک وہ صاحب عزت تصور نہیں ہوتے تھے ۔ رعب میں دبے دیہاتی اس کا تذکرہ نہ کرتے ۔ نمبردار صاحب کو اس بات کا احساس تڑپاتا رہتا تھا لیکن کسی سے ذکر کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے۔چنانچہ گھاس کٹائی کے زمانے میں وہ مار دھاڑ کر کے گھاس ذخیرہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور سب سے بڑا گہاڑہ بنا لیتے جو کسی کام نہ آتا ۔بہار کا موسم آتا اس ذخیرے کو غریبوں میں بانٹ دیتے جو غریبوں کے کام بھی نہ آتا۔ راشد کے عزیزوں کے گہاڑے یکے بعد دیگرے جل گئے ۔ دور دور سے لوگ ان سانحات پر افسوس کرنے اس کے گائوں آتے ۔ چھ گہاڑے جل کر راکھ کا ڈھیر بنے تو گائوں کی چوٹی پر ایک ہی گہاڑہ کھڑا رہ گیا سب سے بڑا اور مہارت سے تیار کیاگیا نمبر دار صاحب کا گہاڑہ ۔ ادھر راشد کے عزیز اپنے مویشیوں کے لیے چارے کی تلاش میں نکلے تو ان کو نمبردار کے علاوہ کوئی نظر نہ آیا ۔ چنانچہ اس سال نمبر دار صاحب نے چار گنا قیمت کے ساتھ چھ خاندانوں کو گھاس فروخت کر دی ۔ اگلے برس جاڑے کا موسم شروع ہوا تو نمبردار صاحب فوت ہو چکے تھے۔ لیکن ان کے بیٹوں نے حسب معمول سب سے بڑا گہاڑہ بنا دیا اور ایک بھائی کو نمبردار کے منصب پر بھی فائز کر دیا تھا۔ چنانچہ اس برس راشد کا خاندان گہاڑوں کی حفاظت میں کامیاب ہو گیا لیکن اگلے موہڑے میں یکے بعد دیگرے چھ سات گہاڑے جل گئے، اس برس بھی نمبردار صاحب کی گھاس بھاری قیمت میں فروخت ہو گئی ۔ شاید یہ معمول جاری رہتا ایک روز ٹھیکری پہرے والوں نے گہاڑے کو آگ لگاتے مرحوم نمبر دار کے’’ نو منتخب نمبر دار ‘‘ کو پکڑ لیا ۔ شام کے دھندلکے میں دونوں موہڑوں کے جوانوں نے نمبردار کے جانشین کی وہ پٹائی کی کہ دوسرے گائوں تک آوازیں سنی گئیں ۔