پاکستان میں تعلیم کیوں زبوں حالی کا شکار ہے۔ دنیا نے کمیونیکیشن کے حوالے سے گزشتہ تین دہائیوں میں جو ناقابل یقین ترقی کی ہے۔ کیا اس کے اثرات ہمارے تعلیمی معیار پر پڑے ہیں۔ تعلیم کو آپ دو سے تین حصوں میں باآسانی بانٹ سکتے ہیں۔ پرائمری ایجوکیشن‘ ہائر ایجوکیشن اور یونیورسٹی ایجوکیشن۔ اگر آپ امریکہ‘ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالیں تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ وہاںسکول کی سطح پر عمومی طور پر تعلیم یا تو بالکل مفت ہے یا بہت ہی کم اخراجات کا تقاضہ کرتی ہے۔ ہاں ان ممالک میں ہائر ایجوکیشن بہت مہنگی ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ اعلیٰ تعلیم عام شہری کی دسترس سے باہر ہے تو بے جانہ ہوگا۔ جبکہ اس کے برخلاف پاکستان میں تعلیم کے کئی معیار ہیں۔ جب بچہ ابتدائی طور پر اسکول جاتا ہے تو اس کیلئے یہ چوائس ہوتی ہے کہ وہ کس طرح کے تعلیمی ادارے میں پڑھنا چاہتا ہے۔ پرائمری اور مڈل کی سطح پر پاکستان میں متعدد اسٹینڈرز موجود ہیں ۔کراچی،لاہور اور کئی بڑے شہروں میں مہنگے ترین تعلیمی ادارے ہیں۔ پھر درمیانے درجے کے اسکول ہیں اور آخر میں سرکاری اسکولوں کی باری آتی ہے۔ بنیادی طورپر تعلیم اور صحت کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ آپ کی مرضی یا چوائس کے مطابق نہیں ہوتا اس کا فیصلہ آپ اپنی مالی استطاعت دیکھ کر کرتے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ کم از کم بچوں کو اسکول کی تعلیم ہر قیمت پر حاصل کرنی چاہئے جس سے ہم اپنی خواندگی کی شرح کا اندازہ کرسکتے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان میں آبادی کی شرح جس رفتار سے بڑھ رہی ہے کیا ہم نے سرکاری سطح پر ابتدائی تعلیم کیلئے اتنے اسکول موجود ہیں جن میں ہر خواہشمند والدین اپنے بچے کو ان سکولوں میں بھیج سکیں۔ اس کا جواب ’’ناں‘‘ میں ہے۔ یہ دیکھیں کہ سرکاری سطح پر ہم اسکولوں کی تعلیم پر کتنی رقم خرچ کررہے ہیں تو اس کا جواب بھی مایوس کن ہے۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بجٹ ابتدائی تعلیم کیلئے مختص کیا جاتا ہے کیا وہ واقعی پوری طرح اسی مد میں خرچ ہوتا ہے اس کا جواب بھی آپ کو ’’ناں‘‘ میں ملے گا۔ اس کی تنظیم ‘ اس کی پلاننگ‘ اس کی فیکلٹیز کا معیار‘ اساتذہ کی ٹریننگ‘ اسکولوں کی عمارتوں میں فراہم کی گئی سہولتیں‘ ان کا معیار کیا ہے تو اس موڑ پر بھی حقائق جان کر آپ مایوس ہوں گے۔ یہ تو میں آپ کو شہروں میں قائم شدہ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی بتارہا ہوں۔ اگر آپ پاکستان کے طول و عرض کے دیہی علاقوں میں چلے جائیں تو پھر آپ کو اور زیادہ خستہ حالی نظر آئے گی۔ یہاں تک کہ اسکولوں کی عمارتوں میں آپ کو مویشی بندھے نظر آئیں گے‘ یہ اسکول کی عمارتیں وہاں کے بااثر وڈیرے کے اوطاق کا روپ دھار چکی ہیں۔ میں نے سندھ کی حد تک شہری اور دیہی علاقوں میں ایسے اسکولوں کا ایک سروے کیا۔ سب سے اہم پہلو یہ دکھائی دیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے سے کتراتے ہیں۔ اس میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ایک وجہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان سرکاری اسکولوں کی فیکلٹیز پر نظر ڈالیں تو یہ آپ کو بہت کمزور اور بے سود سے نظر آتی ہے۔ اس بات کا جائزہ لیں کہ ایسا کیوں ہے‘ آپ کو نظر آئے گا کہ اساتذہ کی اسامیوں کو پر کرنے کیلئے جتنی بے ضابطگیاں‘ رشوت‘سفارشیں چلتی ہیں شاید یہ کمزوریاں پولیس کے محکمے سے بھی زیادہ ہوں پھر جو لوگ اس پیشے کو اختیار کرتے ہیں وہ اتنے Dedicated نہیں ہوتے۔ ان کی اکثریت اپنے اپنے مضامین میں پرفیکٹ نہیں ہوتی۔ پھر ان کی تربیت کا کوئی ایسا جامع مربوط اور منظم طریقہ کار نہیں جو اس بھٹی سے نکلے وہ کندن بن کر ایک اچھا استاد بن جائے۔ ان میں سے 70 فیصد اساتذہ کے رجحان اور میلان بھی تدریس کے شعبے سے باہم مربوط نہیں ہوتا۔ پھر یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک اچھے استاد بن کر ان توقعات پر پورا اتر سکیں گے ۔اس لئے ہمارے معاشرے میں گزشتہ 35 سال سے سرکاری اسکولوں میں صرف وہی بچے پڑھتے ہیں جن کے والدین ان کی فیس کی ادائیگی کے حوالے سے اس کے متحمل نہیں ہوتے۔ اس کی آسان الفاظ میں یہی وضاحت کی جاسکتی ہے کہ سرکاری اسکول صرف غریب بچوں کیلئے ہیں۔ یہ بھی بڑے دلچسپ بات ہے کہ اسکول کی سطح پر آٹھویں جماعت تک مختلف کیڈرز کے سکولوں کا نصاب بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہم اس موضوع پر بڑے تفصیل سے بحث کریں گے۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان بچوں کے والدین جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ اب اس سطح پر اگر پرائیویٹ اسکولز کا ایک تفصیلی جائزہ لیں تو یہ بھی متعدد کیڈرز میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک پرائیویٹ اسکولز وہ ہیں جو باقاعدہ ایک سسٹم کے تحت چل رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں مختلف کانووینٹ اسکولز سٹی‘ بیکن ہاؤس‘ فاؤنڈیشن اور دیگر درجنوں سسٹمز موجود ہیں۔ سسٹم کے تحت چلنے والے یہ اسکول بہت مہنگے ہیں۔ ان میں طلبا اور طالبات کی فیسیں 20 سے 30 ہزار تک پہنچ چکی ہیں۔ ان اسکولوں نے اپنا اپنا نصاب بنایا ہوا ہے۔ ان اسکولوں نے اپنی زیادہ تر عمارتیں کرائے کے مکانوں میں پوش علاقوں میں حاصل کررکھی ہیں تاکہ یہ ان علاقوں اور آبادیوں میں زیادہ تر کھولے جائیں رہنے والے ان کی بھاری بھرکم فیسیں برداشت کرنے کی اہلیت ہوں۔ ان اسکولوں کے اپنے بڑے من مانے قواعد و ضوابط ہیں۔ ان میں طلبا اور طالبات کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام کورسز اور نوٹس بکس وغیرہ انہی اسکولوں سے خریدیں بلکہ یوں سمجھیں کہ انہوں نے اس کیلئے طلبا اور طالبات کیلئے اس کا پابند بنایا ہوا ہے۔ یہ سکولز چھوٹے بڑے گھروں میں قائم ہیں ور ان کے چین کے مجموعی بجٹ اربوں روپے ہے اور اس سے ہٹ کر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اپنے دعوؤں کے برعکس ان کے ہاں طلبا و طالبات کی ضروری سہولیات موجود نہیں جو تعلیمی اداروں کی بنیادی ضرورت ہے۔