ملک بھر میں قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلیوں کی سولہ نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی دو اور پنجاب اسمبلی کی نو نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔مسلم لیگ ن کو بلوچستان کی ایک صوبائی نشست پر بھی کامیابی ملی ہے۔سنی اتحاد کونسل خیبر پختونخوا کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئی جبکہ علی امین گنڈا پور کی چھوڑی نشست پر ان کے بھائی کامیاب ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی کو ایک قومی اور ایک پنجاب اسمبلی کی نشست پر کامیابی ملی۔الیکشن کے انتظامات اور ٹرن آوٹ کے معاملے میں الیکش کمیشن کی کارکردگی ایک بار پھر غیر تسلی بخش دکھائی دی۔ ضمنی الیکن کے نتیجے میں حکومت تبدیل ہونے کا امکان قطعی موجود نہ تھا پھر بھی سرکاری پارٹی کے امیدواروں اور الیکشن کمیشن کا طرز عمل انتخابی شفافیت پر سوال اٹھا رہا ہے۔پریزائیڈنگ افسر کھلے عام ہوتی دھاندلی کے سامنے بے بس دکھائی دیئے۔نارووال میں کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک جماعت کا کارکن ہلاک ہو گیا۔متعدد مقامات پرالیکشن کمیشن کے عملے نے پولنگ شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی فارم پنتالیس پر دستخط کروا لئے۔ یہ کھلی دھاندلی کی مثال ہے۔قاعدہ یہ ہے کہ تمام امیدواروں کے نمائندوں کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے اور ہر ایک کے ووٹ فارم پنتالیس میں درج کر کے اس فارم پر سبھی جماعتوں کے ایجنٹوں کے دستخط لے لئے جاتے ہیں۔ آخر میں پریذائیڈنگ افسر اس پر دستخط کرتا ہے۔فارم پنتالیس کے ھوالے سے عام انتخابات کے دوران ایک تنازع ابھی حل نہیں ہو سکا۔ درجنوں شکایات عدالتوں میں سماعت کی منتظر ہیں۔کچھ شکایات کا اندراج نہیں کیا جا سکا ۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے دوران شفافیت برقرار رکھنے کا کوئی سبق لینے کی بجائے دھاندلی کے طریقہ کار پر عوامی تنقید کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے طرز عمل کا تعین کیا ہے۔یہ رویہ نئی شکایات کا باعث بنا ہے۔ اتوار کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکیس نشستوں پر ضمنی انتخابات کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پنجاب اور بلوچستان کے مخصوص اضلاع میں سخت سکیورٹی اور موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی معطلیرہی۔مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سمیت بڑی سیاسی جماعتوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا۔ تاہم مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علماء اسلام ف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔دیگر کسی جماعت کی طرف سے بھی کامیابی نہیں دیکھی گئی ۔اس سے پاکستان میں ووٹر کے رجحان کا اندازہ ہوتا ہے جو قابل ذکر چار پانچ جماعتوں کے سوا کسی کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔اس سے قبل آٹھ فروری کو قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ان الیکشنوں میں شفافیت برقرار رکھنے کے لئے الیکشن کمیشن نے کافی دعوے کر رکھے تھے۔ الیکشن کمیشنر نے ایک روز قبل اعلان کیا تھا کہ فون اور انٹرنیٹ سروس معطل نہیں کی جائے گی۔الیکشن کے دوران مجموعی طور پر امن و امان کی حالت مناسب رہی لیکن رات گئے نتائج کی تبدیلی کا سکینڈل الیکشن کمیشن کی ساکھ تباہ کر گیا۔اس خراب ساکھ کے ساتھ ضمنی انتخابات کا انعقاد کسی طور الیکشن کمیشن کی نیک نامی میں اضافے کی وجہ نہیں بنا۔حالیہ ضمنی انتخابات میں بالترتیب ایک قومی اسمبلی، دو پنجاب اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی ایک نشست کے لیے پولنگ منسوخ کر دی گئی۔پنجاب میں این اے 132 (قصور) اور این اے 119 (لاہور) وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز نے خالی کی تھیں جب کہ شہباز شریف نے لاہور میں اپنی دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی چھوڑ دی تھیں۔ تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی اپنی این اے 123 کی نشست برقرار رکھی۔ان رہنماؤں کے علاوہ ایک سے زیادہ نشستیں جیتنے والے امیدواروں نے انتخابات کے بعد منتخب کردہ نشست کا انتخاب کیا، جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 21 نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانا پڑے، جن میں پانچ قومی اور 16 صوبائی اسمبلی کی نشستیں شامل تھیں۔ایک روز قبل وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ضمنی انتخابات کے دوران پنجاب اور بلوچستان کے مخصوص اضلاع میں سیلولر سروس عارضی طور پر معطل رہے گی۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق یہ فیصلہ انتخابی عمل کی شفافیت اور سلامتی کے تحفظ کے لیے کیا گیا ۔وفاقی حکومت نے ضمنی انتخابات کے دوران پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کے اہلکاروں کی تعیناتی کی ۔ ان فورسز نے فوری رسپانس فورس کے طور پر کام کیا، جو پولیس کے پیچھے دوسرے اور تیسرے درجے کے طور پر تعینات تھے۔921 پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے تقریباً 13,800 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ ای سی پی ضمنی انتخابات میں تعینات مسلح افواج کے علاوہ سکیورٹی اہلکاروں کو غیر جانبداری برقرار رکھنے، افسران کی مدد کرنے، امن کو یقینی بنانے، تصادم، گرفتاریوں یا مداخلت سے بچنے، بے ضابطگیوں کی اطلاع دینے اور خاص طور پر گنتی کرنے کی ہدایت کر سکتا ہے۔ پاکستان ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے جہاں الیکش کمیشن ، سیاسی جماعتوں اور ووٹروں کا باہمی عدم تعاون جمہوری نظام کو کمزورکر سکتا ہے۔انتخابات عوامی نمائندگی کا حق طے کرتے ہیں لیکن پاکستان میں انتخابی عمل نئے جھگڑوں کی بنیاد بنتا رہا ہے۔دنیا سماجی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کر رہی ہے اس بدلتی دنیا میں ایک خود اعتمادی دکھائی دیتی ہے جبکہ دھاندلی کی مسلسل شکایات کی زد میں رہنے والا نظام عوام کا اعتماد کھو دیتا ہے۔الیکشن کمیشن صرف شکایات کا نوٹس لینے کی بجائے ان کو جلد اور شفاف طریقے سے دور کر سکے تو معاملات میں بہتری کی امید ہو سکتی ہے۔