صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست پر اشرافیہ کا قبضہ ہو چکا ہے جبکہ حالیہ عام انتخابات کے نتائج پر پورا ملک سوال اٹھا رہا ہے۔صدر مملکت نے بجا طور پر کہا کہ پرانی باتیں بھلا کر آگے بڑھنے اور تمام طبقات کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت کے خیالات کو مسلم لیگ ن کے سوا باقی سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج مسترد کرنے اور احتجاجی تحریک چلانے کے اعلان کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو ایک نیا قومی بحران ابھرتا نظر آتا ہے۔احتجاجی تحریک کا محور خیبر پختون خوا بنتا نظر آتا ہے جہاں دہشت گردی اور دوسرے عوامل نے پہلے ہی مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ پاکستان میں کئی ہفتوں سے سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہے، درجنوں حلقوں کے نتائج کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے اور سابق حریف جماعتیں ممکنہ نئے اتحاد پر بات چیت کر رہی ہیں۔درجنوں حلقوں میں ابھی ضمنی انتخابات ہوں گے۔متعدد امیدواروں نے ایک سے زیادہ حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کے قانون کے تحت اس کی اجازت ہے تاہم انہیں ایک حلقے کا انتخاب کرنا پڑے گا اور دوسری نشست پر نئے انتخابات کرانا ہوں گے۔ وطن عزیز میں انتخابی خرابیوں میں سے ایک پارٹی سے انحراف بھی عام ہے، جیتنے والا آزاد، جس نے الیکشن سے پہلے کسی جماعت سے وفاداری کا عہد کیا، وہ دوسری جماعتمیں شامل ہو رہا ہے۔ ایسے نو منتخب ارکان کی سابق جماعت اور ووٹر احتجاج کر رہے ہیں۔ کسی بھی جمہوری عمل کی ساکھ اس کی انصاف پسندی اور شفافیت پر منحصر ہے۔ انتخابی عمل کے تقدس کو داغدار کرنے والی بے ضابطگیوں کی رپورٹوں کو دیکھ کر عام آدمی پریشان ہے۔جمہوری اداروں کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ان الزامات کی مکمل تحقیقات کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔الیکشن کمیشن کی نا اہلی نے دوسرے اداروں کی ساکھ داو پر لگا دی ہے۔ مکمل تحقیقات نہ ہو سکیں تو خرابی سنگین ہو سکتی ہے۔ انتخابی عمل کی پیچیدگی کی وجہ سے معاملے کی جڑ نظر انداز ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ووٹر ٹرن آؤٹ حوصلہ افزا رہا لیکن یہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق خدشات کو دور نہیں کرتا ہے۔ ایک مضبوط جمہوریت صرف زیادہ ٹرن آؤٹ پر انحصار نہیں کرتی۔ اس کے لیے انتخابی عمل کے ہر مرحلے پر جمہوری اصولوں اور طریقہ کار کی پابندی ضروری ہے۔ یہ سچ ہے کہ ابتدائی جائزے اور مشاہدات ممکنہ خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تعمیری تنقید، اصلاحات پر اتفاق رائے فراہم کر سکتی ہے ۔یہ انتخابی عمل کی ساکھ کو بڑھا سکتی ہے۔حکومت اور متعلقہ اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنقید کو یکسر مسترد کرنے کے بجائے اسے خود شناسی اور اصلاح کے موقع کے طور پر قبول کریں۔ ایک متحرک جمہوری سیاست کا راستہ شفافیت، جوابدہی اور انتخابی طریقوں کی مسلسل تطہیر کے عزم پر استوار ہوتا ہے۔ پاکستان کے بانیوں نے ایک ایسے جمہوری معاشرے کا تصور کیا جہاں ہر شہری کی آواز اہمیت رکھتی ہو۔ ایک ایسا وژن جو انتخابی عمل کے حوالے سے پیدا ہونے والے خدشات کو دور کرنے کے لیے بھرپور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی قوم معاشی بدحالی سے بچنے کے لیے جدو جہد کررہی ہے۔ پاکستان کے پاس زر مبادلہ ذخائر میں صرف اتنی غیر ملکی کرنسی ہے کہ وہ تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی کر سکے۔بندرگاہوں پر ہزاروں شپنگ کنٹینرز کا ڈھیر لگا ہوا ہے، خوراک اور توانائی جیسی ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پچیس کروڑ کے ملک میں قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی پریشان ہے۔گزشتہ تین ماہ سے ملک بھر میں گیس کے بلوں اور بجلی کی بندش نے پریشانی بڑھا دی ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو جمود کا شکار بنا دیا ہے،موسم گرما کی آمد آمد ہے لیکن کسی کو یقین نہیں کہ لوگ اندھیرے اور گرمی میں کیسے گزارا کریں گے۔ ہسپتال بیک اپ جنریٹرز پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ پاکستانادائیگیوں کے عدم توازن کا سامنا کر رہا ہے ۔ ملک تجارت سے جتنا کما رہا ہے اس سے زیادہ خرچ کر رہا ہے، غیر ملکی کرنسی کا ذخیرہ کم ہو رہا ہے اور روپے کی قدر کو خطرات ہیں ۔یہ صورتحال غیر ملکی قرض دہندگان سے قرض پر سود کو مزید مہنگی بناتی ہے اور اشیا کی درآمد کی لاگت کو بڑھا دیتی ہے۔ملک قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے بھی دوچار ہے۔ ملک کے مرکزی بینک نے تقریباً 40 فیصد سالانہ افراط زر پر قابو پانے کے لیے اپنی کلیدی شرح سود کو بڑھا کر 22 فیصد کر رکھاہے۔ سیاسی عدم استحکام کا اثر ملک کی معیشت پر منفی انداز میں مرتب ہو رہا ہے ۔سرمایہ کاری کی شرح نیچے آئی ہے۔ دو سال پہلے آنے والے تاریخی سیلاب کی وجہ سے تعمیر نو اور امداد کے لیے بھاری اخراجات ہوئے،بحالی کے متعدد منصوبوں پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا،سیلاب سے حکومتی بجٹ پر دباؤ پڑا ہے۔ ورلڈ بینک نے اندازہ لگایاکہ نقصانات اور نقصانات سے نمٹنے کے لیے کم از کم 16 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔پاکستان نے نقصانات کا حجم تیس ارب ڈالر لگایا ۔سیاسی عدم استحکام اس درجہ طاقتور ہے کہ الیکشن کے بعد بھی اس میں کمی نہیں ہو رہی۔سیاسی جماعتیں پریس کانفرنسیں کر رہی ہیں،احتجاج اور مظاہروں کی بات کر رہی ہیں۔ایسے میں ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے جب ایک پڑاو کے بعد نیا بحران سر اٹھانے لگے۔انتخابی شکایات کا آزادانہ ازالہ اور ایک قومی ایجنڈے پر اتفاق پر تمام قوتیں اکٹھی نہ ہوئیں تو سارا نظام ساکھ کھو بیٹھے گا۔