حبیب جالب ایک بہت بڑے انسان اور شاعر تھے جو باتیں اُنہوں نے فیض احمد فیض کی طرح اپنی انقلابی شاعری کے ذریعے کہی تھیں وہ آج بھی سچ ثابت ہو رہی ہیں، وزیر اعظم میاں شہباز شریف کسی زمانہ میں جب صدر آصف علی زرداری کے خلاف تقریریں کیا کرتے تو حبیب جالب کے ترنم میں اُنہی کی ایک تاریخی یاد گار نظم جو اُنہوں نے صدر ایوب خان کے خلاف لکھی تھی پڑھا کرتے تھے کہ ’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا ‘‘ پھر آج زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میاں شہباز شریف اور صدر آصف زرداری آپس میں ایک ہو چکے ہیں اور ریاست کے یہ دونوں بڑے رکھوالے ایک دوسرے کے سیاسی نظریات اور دیگر کئی مفادات کا اکٹھے تحفظ کر رہے ہیں، ویسے تو ریاست عوام کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے، جس طرح سے ماں اپنے بچوں کے لیے سب کچھ قربان کر دیتی ہے بعینہ اسی طرح سے ریاست کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے عوام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دے لیکن ہمارے ہاں اُلٹا دستور ہے کہ اپنے لیے عوام کو قربان کر دو ۔آج ہمارے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے کون سا بڑا طبقہ اور ادارہ ہے جو عوام کا خون نہیں چوس رہا ابھی کل سوئی گیس کی قیمتوں میں 155 فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جبکہ پیٹرول کی قیمتیں بھی آئندہ دنوں تک بہت زیادہ بڑھنے کا امکان ہے یہ ظلم آخر ہر نئی آنے والی حکومت کیوں کرتی ہے اس لیے کہ ہم سود کو ہر حال میں اپنی معاشی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے ساتھ ہم نے جنگ شروع کی ہوئی ہے ہم نے اپنے دین کے ساتھ منافقت کی ہوئی ہے ایک طرف اسلام کا لبادہ اُڑھتے ہیں، آئی ایم ایف اپنی ہر قسط میں ہم سے گیارہ گنا سوداضافے کے ساتھ وصولی کرتی ہے اور یہ اِس ظالم آئی ایم ایف کا پہلا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں زیادہ مہنگی کی جائے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے چونکہ ’’عوام ‘‘سے مراد عام آدمی یعنی مزدور طبقہ شامل ہوتا ہے اس لیے آئی ایم ایف اپنی کلاس اشرافیہ کا خیال رکھتے ہوئے براہ راست عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے اور دوسرا اُن کو پتہ ہے کہ عوام ہی دن رات محنت مزدوری کر کے اِس ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ کرتے ہیں گیس ، بجلی اور پیٹرول عوام ہی نے ہر حال میں استعمال کرنا ہوتا ہے ایک شہر سے دوسرے شہر محنت مزدوری کرنے کے لیے عوام ہی نے عام ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنا ہوتا ہے اس لیے تیل کی قیمتوں میں جتنا زیادہ اضافہ ہو سکے کر دیا جائے،حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسوں کی وجہ سے عوام چیخ رہے ہیں اُن کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور آپ درجنوں ایکڑ محلات میں سینکڑوں ملازمین کی یس سر میں مست ہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ لوگ ذرا عوام کی زبان بن سکتے اور جو لوگ حبیب جالب ،آغا شورش کاشمیری کی صورت میں عوام کی زبان ہوا کرتے تھے وہ قبروں میں چلے گئے حبیب جالب نے عوام ہی کی نمائندگی کرتے ہوئے صدر ایوب پر جب یوں چوٹ کی تھی کہ ’’بیس روپے من ہے آٹا پورے ملک میں ہے سناٹا صدر ایوب زندہ باد ‘‘ اور پھر اِن ظالم حکمرانوں کو ریاض شاہد کی فلم ’’یہ امن ‘‘ میں یوں بھی پیغام دیا تھا ۔ ظلم رہے اور امن بھی ہو ۔کیا ممکن ہے تم ہی کہو ۔اپنے ہونٹ سیے ہیں تم نے ۔میری زبان کو مت روکو عوام شاعراور صحافی کا صحیح معنوں میں مرتبہ پانے والے حبیب جالب نے دراصل اِس مندرجہ بالا شعر میں اپنے ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور شاعروں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کے لیے لکھا تھا لیکن افسوس کہ آج ہمارے عوام پر روزانہ جو مہنگائی اور جان توڑ مہنگائی حکمرانوں کی طرف سے برسائی جا رہی ہے اُس پر وہ تمام اہل قلم جو شہر اقتدار میں رہتے ہوئے حکمرانوں کے نزدیک تر سمجھے جاتے ہیں وہ خاموش ہیں اور وہ صرف اِن حکمرانوں کے گیت گا کر اپنے لیے مفادات حاصل کر رہے ہیں پھر تو ایک خاص طبقہ کے وہ لوگ جن کو ہم کیا کچھ نہیں پکارتے اِن میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں رہا عوام پر آج جو ظلم روا رکھا جا رہا ہے اور جس طرح سے بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں نا قابل برداشت اضافہ کیا جا رہا ہے اِس سے ملک میں زبردست انار کی پھیل سکتی ہے ہمارا حکمران اور امیر طبقہ اپنے دفاع کے لیے بہت زیادہ اقدامات کر چکے ہیں لیکن اُن کی یہ حکمرانی اور اختیارت تب تک چلیں گے جب تک عوام یہ ظلم برداشت کر سکتے ہیں اور جس دن عوام کی سکت ظلم سہنے سے انکاری ہو گئی تو اُس دن اِن کی حکمرانی بھی نہیں رہے گی چونکہ بادشاہوں کی حکمرانی عوام پر ہی ہوتی ہے اور جب عوام بیچارے ہی ختم ہو جائے اور یا پھر میدان میں آجائیں تو ’’پھر ترا کیا بنے گا کالیا ‘‘اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو بار با ر ڈھیل دے رہے ہیں کہ اِس مملکت خداداد کی قدرکرنا سیکھو یہ ملک لاکھوں مسلمانوں کے خون کی قربانی دینے سے بنا تھا اب اِس گلستان کو اُجڑانا چھوڑ دوں ملک کو لوٹنا ختم کر دوں۔