یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ بہت کچھ بدل گیا۔ اس شہر کی تصویر کے رنگ دھندلا کیوں گئے؟ یہ 75 سال کی کہانی ہے۔ اس داستان نے نہ جانے کتنے موڑ کاٹے ہیں۔ اس کا چہرہ ایسا کیوں ہوگیا؟ اس کے باوجود کہ یہاں رہنے والے کروڑوں لوگ اس سے محبت کرتے ہیں، لیکن جن لوگوں کی اس شہر کو خوشنما، دلکش اور پرسکون رکھنے کی ذمہ داریاں تھیں وہ بے وفا نکلے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، اس شہر کے جسم پر کتنے زخم ہیں، کتنے دکھ اس نے اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے ہیں، کتنے کربناک لمحات بحیرہ عرب کے کنارے واقع اس شہر کو لہولہان کرگئے ہیں۔ یہ تو 75 سال پہلے سمندر کے قریب ساڑھے تین لاکھ نفوس پر مشتمل مچھیروں کی ایک بستی تھی۔ آزادی ملی تو یہ پاکستان کا پہلا دارالخلافہ بنا۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کیلئے سب سے بڑی پناہ گاہ بنی۔ بندرگاہ ہونے کے سبب اس میں کسی بھی دوسرے شہر کے مقابلے میں زیادہ دم ختم تھا۔ زیادہ مواقع موجود تھے۔ ملازمتوں سے لیکر کاروبار تک امکانات کا سلسلہ موجود تھا۔ بے شمار لوگ جو سمندری راستے سے ہجرت کرکے آئے تھے ان لوگوں کا پہلا ٹھکانہ ہی یہ شہر تھا۔ بابائے قوم نے آزادی کے بعد اسی شہر میں اپنا پہلا قدم رکھا۔ یہاں پر پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اب ہم اپنے مستقبل کے سفر میں اپنی تقدیر لکھنے کے خود ذمہ دار ہیں۔ تاریخ کا مورخ جب 75 سال کے گزرے اس سفر پر نظر ڈالتا ہے تو نہ جانے اس کے چہرے پر کرب اور دکھ کے احساسات کیوں امڈ آتے ہیں۔ یہی وہ شہر ہے جہاں ملک کی پہلی اسمبلی میں کھڑے ہوکر قائد ملت شہید لیاقت علی خان نے سبز ہلالی پرچم لہرایا تھا، جو اس بات کا غماز تھا کہ معرض وجود میں آنے والی اس مملکت میں آبادی کے تمام طبقات پوری آزادی کے ساتھ انصاف کے تحت اپنی خواہش اور آرزوؤں کے مطابق محفوظ زندگی گزار سکیں گے اور یہ مملکت ہر قیمت پر اس کا دفاع کرے گی۔ پھر یہی وہ شہر تھا جس کی ماڑی پور سے شہر کی طرف آتی ہوئی ایک سڑک پر بابائے قوم کی ایمبولینس اس وقت خراب ہوگی جب اس مملکت کا نجات دہندہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ اسی رات قائد اعظم اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ قائد اعظم کی تدفین کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا یہ شہر سے باہر ایک پہاڑی نما ٹیلہ تھا۔ قائد کی تدفین کے بعد ان کی آخری آرام گاہ کی جگہ کے انتخاب پر خان لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا یہ گیا کہ قائداعظم کو شہر کے باہر ایک ٹیلے پر سپردخاک کردیا گیا۔ آج کراچی کہاں تک پھیل گیا۔ پھیلتا ہی جارہا ہے۔ سمٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ پاکستان کیلئے ابتدائی دن بڑے مشکل تھے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بار فارن سروس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے والے آغا ہلالی بتارہے تھے کہ نئی مملکت کے حالات اتنے دگرگوں تھے کہ ہم کاغذؤں کو نتھی کرنے کیلئے پن کے بجائے ببول کے کانٹے استعمال کرتے تھے۔ فارن آفس ڈیفنس میں سب میرین چوک کے پاس تھا۔ اب تو اس علاقے کی پوری ہیئت بدل کر رہ گئی ہے۔ آغا ہلالی نے بتایا تھا کہ ہمارے پاس آفس میں کوئی ٹائپ رائٹر نہیں تھا۔ پھر میں ایک بگھی میں بیٹھ کر ٹائپ رائٹر خریدنے بولٹن مارکیٹ گیا تھا۔ وہ بتارہے تھے کہ اس وقت بولٹن مارکیٹ کا علاقہ سب سے زیادہ پررونق اور خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی کے مختلف علاقوں کو ملانے کیلئے بسوں کے علاوہ ٹرام آمد و رفت کا ذریعہ تھیں۔ یہ لوگوں کو بچوں کے اسکول کی گھنٹی کی طرح ٹن ٹن کی آواز سے متوجہ کرتیں۔ پاکستان بننے کے بعد 25 سال کی کہانی تو میں آپ کو ان یادوں کے سہارے بتانے کی کوشش کروں گا جو مختلف انٹرویوز اور ملاقاتوں میں چند پرانی ممتاز شخصیات سے سنیں۔ ان میں اپنے وقت کے ممتاز قانون دان محترم خالد اسحاق، جناب علی احمد تالپور، جناب جسٹس قدیر الدین، جناب جمیل الدین عالی، جناب رئیس امروہوی، جناب نصر اللہ خان، جناب شوکت صدیقی، جناب عبدالجبار خان، محترم حنفی صاحب، محترم میر خلیل الرحمن، اولمپئن انوار احمد خان یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے ابتدائی سالوں میں کراچی کے رنگ و روپ کو بدلتے دیکھا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے اپنے شعبوں کی ابتداء اور ارتقاء کے متعلق بڑی دلچسپ اور سیر حاصل گفتگو کی اور میں اس وقت سچ مچ بڑا حیران ہوا۔ جب پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر نے مجھے قادر الکلام قانون دان جناب عبدالحیفظ پیرزادہ سے ملوایا۔ پیرزادہ انتہائی مصروف انسان تھے۔ بہت بڑے وکیل تھے۔ 1973ء کے آئین کی تیاری کے سب سے اہم کردار تھے۔ اس وقت کے وزیر قانون تھے۔ بھٹو کے سوہنا منڈا تھے۔ سکھر کے رہنے والے تھے لیکن کراچی کے متعلق ان کی معلومات اتنی زبردست تھیں کہ جب آپ پڑھیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ کراچی کے اس سفر میں اپنی ڈائری کے صفحات پلٹتا جاؤں گا۔ کراچی نے کیسے انمول لوگ پیدا کئے، یہاں کی تہذیب و ثقافت و تمدن، طرز فکر، رہن سہن، یہاں کے کھانے، تعلیمی درسگاہیں، ادبی محفلیں، صحافتی معیار اور اس کا ارتقائ، یہاں پر قائم ہونے والے مالیاتی ادارے، غرض چاروں طرف پھیلتا کنکریٹ کا یہ شہر اپنے دامن میں کیسی کیسی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ تبدیلیاں کیونکر آئیں، ان کے محرکات کیا تھے۔ اگر آپ اس شہر کے مکین ہیں اور 70 سال سے یہاں رہ رہے ہیں تو آپ کے ذہن میں اس شہر کے بدلتے رنگوں کا ایسا جھمگٹا ہوگا جہاں سے یہ شہر دھیرے دھیرے اپنی ارتقائی منزلوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اگر آپ پیر الٰہی بخش کالونی میں رہتے ہیں تو پھر اس شہر میں سب سے پہلے باضابطہ اور باقاعدہ تعمیر ہونے والی یہ رہائشی کالونی کا رنگ ہی آپ کو بتادے گا کہ یہاں کیا کیا تبدیلیاں آگئیں۔ یہ کالونی 50 سال پہلے کیسی تھی۔ اس پوری کالونی میں مڈل کلاس اور اپر کلاس رہا کرتی تھی۔ شاید پوری کالونی میں مجموعی طور پر چند درجن کاریں تھیں۔ اس وقت سب سے عمدہ ٹرانسپورٹ کالی پیلی ٹیکسی تھی۔ رکشائیں تھیں یا پھر بسیں۔ آج پیر کالونی بدل چکی ہے۔ بسوں کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ سب سے قدیم بسوں یعنی 8 نمبر اور 8-A کا بس اسٹاپ یا آخری ٹھکانہ اسی کالونی کا ایک میدان تھا۔ اب جگہیں کم اور آبادی بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سبزی منڈی تھی جہاں راتیں جاگتی تھیں کیونکہ پورے ملک سے فروٹ اور سبزیوں کی سپلائی اسی منڈی کے ذریعے شہر میں ہوتی تھی۔ جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی۔ اب یہاں شہر کی خوبصورت اور بہت بڑی مسجد اور عوام کیلئے ایک تفریحی پارک بھی بنادیا گیا ہے۔ یہاں کی سڑکیں کبھی بہت کشادہ اور صاف ستھری ہوا کرتی تھیں جو اب جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کر موہنجو دڑو کا منظر اور کوڑے دانوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ بے ترتیبی اور قانونی تقاضوں پر عملدرآمد کے فقدان کے سبب یہ سڑکیں اور گلیاں سکڑتی چلی گئی ہیں۔ اب 8A کا بس اسٹاپ آپ کو اجڑا ہوا دکھائی دے گا۔ اب یہاں کوئی ابراہیم جلیس جنگ اخبار جانے کیلئے بس کے انتظار میں کھڑا نظر نہیں آئے گا۔ (جاری ہے)