عالمی بینک نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ بجلی اور گیس کا گردشی قرضہ 55کھرب سے تجاوز کر چکا ہے اگر حکومت نے اصلاحات نہ کیں تو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا مزید بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔سابق نگران حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں ماسوائے کراچی 3781ارب روپے مالیت کی بجلی سسٹم میں ڈالی جاتی ہے جبکہ بلنگ کی صورت میں 3192ارب وصول ہوتے ہیں جبکہ 589ارب کی بجلی چوری ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی چوری حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے اور اس کا ثبوت تقسیم کار کمپنیوں کا بجلی چوری پکڑنے اور خسارہ کم کرنے کے لیے حکومتی دبائو کے نتیجے میں سرکاری اداروں کو 76ارب روپے سے زائد کی بلنگ کا انکشاف ہے ۔ اسی طرح گیس کی چوری روکنے کے اقدامات بھی بظاہر نمائشی محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے مفر نہیں کہ بجلی اور گیس چوری محکمہ کے ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی جب تک حکومت کرپٹ ملازمین کے خلاف مؤثر اقدامات اور چوری میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا نہیں دیتی اس وقت تک توانائی سیکٹر کا خسارہ کم ہونا ممکن نہیں۔ بہتر ہو گا حکومت بجلی اور گیس کی تقسیم نجی شعبہ کے حوالے کرے یا بجلی میں پری پیڈ میٹر مترادف کروائے تا کہ چوری ممکن ہی نہ ہو سکے اور غریب کو چوری شدہ بجلی اور گیس کی قیمت ادا کرنے سے نجات مل سکے۔