آقائے دو جہاں رسالتمآب ﷺ کا فرمان ہے ’’اسلام ابتدا میں اجنبی تھا اور آخر میں بھی اجنبی ہوگا۔ خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے ۔ اس طرح بھی روایت ہے کہ ایمان اسطرح سمٹ کر مدینہ میں چلا جائے گا جیسے سانپ اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔ اسلام کی ایک تاریخ ہے۔ اسلام کے ماننے والے مسلمان کہلاتے ہیں۔ ان کو اکٹھا کریں تو اُمت کہلاتے ہیں۔ اُمت شدید تقسیم کا شکار ہے۔۔۔ تقسیم در تقسیم ۔ یہ تقسیم کب اور کیسے شروع ہوئی؟ اسکے یہ نتائج کیسے نمودار ہوئے؟ اب جو کچھ ہو رہا ہے۔۔ کیا یہ سب ان پیش گوئیوں کے اجزاء ہیں جو آقائے دو جہاں۔۔۔ اپنے دین اور اپنی اُمت کے متعلق کرچکے ہیں؟ امریکہ ۔۔۔ اسرائیل کو جس طرح تھام کر اُس سے ظلم کروا رہا ہے اور پھر اسلام اور مسلمانوں کے ہیروممالک جسطرح زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں۔اُسے دو طرح سمجھا جا سکتا ہے۔اُمت کی تقسیم کے ذریعے بھی اور غیر مسلموں کی حکمت عملی کے ذریعے بھی۔جب روس اور امریکہ سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکی سکالرز نے تہذیبوں کے درمیان تصادم کی بات بھی کی اور نیو ورلڈ آرڈر کی بھی۔ امریکہ اس وقت دنیاوی اعتبار سے سپر پاور ہے مگر اس کے سامنے سجدہ ریز سکالرز اور دانش ور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ایک طرح کی بت پرستی ہے کہ جس کو طاقتور دیکھا اس کے سامنے سجدہ کر لیا۔امریکہ کو روس،چین اور ایران سے بھی درپیش خدشات ہیں۔اسرائیل حماس کے حملے کو اپنا نائن الیون کہہ رہا ہے مگر آنکھوں سے پٹی اُتاریں تو یہ مسلمانوں کا نائن الیون ہے۔اُمت کا نائن الیون ہے۔ یہ جو کچھ فلسطین کے ساتھ اسرائیل کر رہا ہے۔کیا بات یہاں پر رُک جائے گی؟نہیں بالکل نہیں۔امریکہ کے اندر امریکی یہودیوں کا کتنا اثرو رسوخ ہے۔اسے دیکھنے کے دو طریقے ہیں۔آپ اسکی فوجی اور معاشی قوت سے اس قدر مرعوب ہو جائیں کہ اس کے سامنے سرنڈر کردیں اور سجدہ ریز ہوجائیں۔ مسلم اُمہ کے دانشور اور سکالرز بھی اور امریکہ میں موجود مسلمان تھنک ٹینکس بھی اپنے مضامین، اپنے کالمز اور اپنے ریسرچ ورک کے ذریعے انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والے مسلمانوں کو مرعوب کرتے ہیں۔ مسلم دانش وروں میں سے اکثریت کی ذہنی مزاحمت دم توڑ جاتی ہے۔ دانش ور کی تو اوقات ہی کیا،مسلمان حکمران کی تو ٹانگیں کانپتی ہیں امریکہ سے۔ کیوں؟ مسلمان حکمران زیادہ تر جمہوریت اور اپنے عوام سے خائف ہیں۔پھر 1979 میں جب انقلاب ایران آیا تو وہی ایران جو امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی تھا، اسلامی انقلاب کی وجہ سے امریکہ کا مسلمان دشمن ملک بن گیا۔دنیا بھر میں یہ تاثر اُبھرا کہ ایران کا شیعہ انقلاب اپنی آئیڈیالوجی کو مشرق وسطیٰ اور پڑوسی ممالک میں ایکسپورٹ کرے گا۔ اس پر ایران اور دوسرے مسلمان ملکوں میںخلیج گہری اور وسیع ہوتی چلی گئی۔ مسلمان ملک دو حصوں میں بٹ گئے۔ اکثریت اینٹی ایران سائیڈ پر چلی گئی۔ اس اکثریت کی لیڈرشپ کے لیے سعودی عرب اور ترکی کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر ہے۔ 1919ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ اسکے حصے بخروں میں سے سعودی عرب بھی طلوع ہوا اور اسرائیل بھی۔ برطانیہ اور امریکہ میں یہودیوں کا اثرورسوخ اور ہوم ورک کام آیا۔دوسری جنگ عظیم 1945ء کے بعد سرد جنگ کی بات کی جاتی ہے جس کی وجہ سے دنیا دو بلاکوں میں بٹ گئی۔ امریکن بلاک اور روسی بلاک۔ وہ مسلمان ملک جو خلافتِ عثمانیہ کی کوکھ سے پیدا ہوئے وہی ہیں جو آج مڈل ایسٹ کا حصہ ہیں۔ سعودی عرب ، مصر، ترکی، اُردن، شام اور فلسطین ۔ اُن کے قلب میں اسرائیل کی ریاست بنا دی گئی ۔ جب ایران ، امریکہ کا اتحادی تھا 1979ء سے پہلے تو یہاں کا حکمران شاہ ایران تھا۔ اسکا ایک پرانا انٹرویو دیکھا چند دن پہلے ۔ وہ امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ میں یہودی طاقت کی بات کرتا ہے۔ وہ تو صرف واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کا ذکر کرتا ہے مگر آج کے امریکہ میں صرف میڈیا ہی نہیں ، تیل کی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے بھی یہودیوں کے ہیں۔ امریکہ کے پاور سٹرکچر میں یہودی اس قدر سرائیت کر چکے ہیں کہ اسرائیل کا دوسرا نام امریکہ ہے۔ پاکستان میں 1974ء میں وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے ایک اسلامی کانفرنس بلائی تھی۔ ٹی وی کی سکرین پر سعودی عرب کے شاہ فیصل ، فلسطین کے یاسر عرفات، الجزائر کے ہوری بومدین، لیبیاء کے قذافی اور ذولفقار علی بھٹو کے چہرے بار بار فلیش ہوتے تھے۔ امریکی ٹھنک ٹینک ہنری کیسنجر یہودی النسل ہیں۔ ایک سفارتی تقریب میں یا کسی اور موقع پر شاہ فیصل نے ان سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا کہ وہ یہودی ہیں۔ پھر شاہ فیصل کو سی آئے اے نے مروا دیا،بھٹو، یاسرف عرفات اور کرنل قذافی کیسے اس دنیا سے گئے ؟ عبرت کدائے دہر ہے۔ گرینڈ ڈیزائن ہے،امریکہ اور برطانیہ کا، مڈل ایسٹ میں یہودی ریاست کا جس نے جنم لیا پہلی جنگ عظیم کے بطن سے ۔ مسلمان ملک آپس میں اُلجھتے چلے گئے۔ پھر 1979ء کے ایران کے انقلاب نے سعودیہ اور ایران کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا۔ آج امریکہ ، اسرائیل اور مسلم اُمہ ایک ہی پیج پر نظر آرہے ہیں۔ لِپ سروس عروج پر ہے۔ چین اور روس صرف سلامتی کونسل میں ویٹو کرسکتے ہیں۔ فلسطین اور اُمت مسلمہ کا یہ نائن الیون کہاں جاکر تھمے گا؟ نہیں ،یہ بات رُکے گی نہیں۔ ابتلا اور آزمائش کا موسم اب مسلمانوں کے لیے شروع ہوچکا ہے۔ سعودیہ معاشی ترقی چاہتا ہے مگر وقت کی اپنی کیمسٹری، رفتار اور چلن ہے۔ امریکہ کے اندر یہودی کیسے آپریٹ کرتے ہیں؟ یہ بات پھر کریں گے۔ بڑھتے بڑھتے بڑھ گیا اس قدر دستِ ہوس گھٹتے گھٹتے صرف دستِ دُعا رہ جائے گا