وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا، اس کے ساتھ ہی وہ اندیشے اور پیش گوئیاں بھی ختم ہوگئیں جن کے متعلق کہا جارہا تھا کہ اتحادی حکومت باہم اختلافات موجود ہیں اور اس کے نتیجے میں کابینہ کی تشکیل کھٹائی میں پڑ گئی ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ عوام کو ریلیف دینے اور اپنے سب سے بڑے مخالف عمران خان کو اپنی کارکردگی سے جواب دینے کیلئے کیا جتن کرتے ہیں ۔ کبھی کبھی قلم اٹھانے اور چلانے سے پہلے موضوع کی تلاش اور انتخاب ایک مرحلہ ہوتا ہے‘ لیکن آج کل اتنی فراوانی سے موضوعات بہتے چلے آرہے ہیں۔ ایسے جیسے منوڑہ اور کیماڑی کے درمیان سمندر کی لہروں پر رواں دواں لانچیں‘ جیٹی پر لنگر انداز ہونے کیلئے قطار بنائے باری کا انتظار کرتی نظر آتی ہیں۔ آج مجھے مولانا فضل الرحمن کے یہ الفاظ یاد آرہے ہیں کہ بہار آئے نہ آئئے خزاں کو جانا چاہئے۔ خزاں تو چلی گئی‘ لیکن یہ حقیقت اور زیادہ عیاں کرگئی کہ کوئی مانے یا نہ مانے عمران خان ایک حقیقت ہے۔ سوچ رہا ہوں یہ کیسا سیاسی تصادم ہے‘ جس میں ریاست پاکستان اور اس کے اداروں پر بحث چل پڑی ہے۔ عدلیہ‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور میڈیا ریاست کے چار ستون شمار ہوتے ہیں۔ اگر ان کو آپس میں ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا جائے تو ایک بھونچال آجاتا ہے۔ سیاسی رقابت اور رنجش کا غبار آگے چل کر ایک طوفان بن جاتا ہے۔ میں تو تازہ ترین بحث کو سن کر حیران بھی ہوں اور پریشان بھی کہ سابق وزیراعظم نے برملا کہہ دیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجنا ان کی بڑی غلطی تھی۔ پھر عمران نے حسب عادت اس پورے معاملے کی ذمہ داری اس وقت کے اپنے وزیر قانونی بیرسٹر فروغ نسیم پر ڈال دی۔ یہ کہنا تھا کہ پھر ایک پینڈورا باکس کھل گیا۔ فروغ نسیم اور عمران کے معتمد خاص فواد چوہدری آستین چڑھاکر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ فروغ نسیم نے ترکی بہ ترکی وزیراعظم کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے سے انہوں نے عمران خان کو روکا تا۔ لیکن وہ بضد تھے کہ یہ ریفرنس جانا چاہئے وہ بار بار اس پر اصرار بھی کررہے تھے۔ فواد چوہدری اور فروغ نسیم بدستور اکھاڑے میں ہیں اور بات شائستگی کی تمام حدود پھلانگ کر اب تو تکار تک آن پہنچی ہے۔ ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ صحیح یا غلط عمران خان الزامات کی بوچھاڑ کرگئے۔ شہباز شریف کی حکومت پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔ بڑے بڑے جلسے کررہے ہیں اور حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور عوامی مسائل کو کم کرنے کیلئے مختلف جتن کرتی نظر آتی ہے۔ اصل مقابلہ اسی نکتہ پر ہوگا کہ موجودہ حکومت اپنا ڈیلیوری سسٹم کتنا بہتر طریقہ سے انجام دیتی ہے اور اس کے ثمرات عوام کے تمام کیڈرز سے کب تک پہنچتے ہیں۔ شاید بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عوام بہت بھولی ہے‘ لیکن یہ بات بلاتردد کہی جاسکتی ہے کہ پاکستانی قوم اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور دوسرا یہ کہ مذہب کے معاملے میں کبھی بھی کمپرومائز نہیں کرتی۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کی ’’اقتداری سیاست‘‘ میں مختلف جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد قائم کرکے حکومت بنانا اور حکومتوں کو تبدیل کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ ایسے اتحادوں میں شامل جماعتوں کی تعداد عموماً (9) ہوتی ہے۔ مرحوم بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان مختلف جماعتوں کو اکٹھا کرکے ایک سیاسی اتحاد بنانے کے فن سے بخوبی واقف تھے۔ اب یہ کردار پی ڈی ایم کی تشکیل میں مولانا فضل الرحمن ادا کررہے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان‘ پروفیسر غفور‘ مولانا شاہ احمد نورانی اور غوث بخش بزنجو ہماری قومی سیاست کے وہ کردار رہے ہیں جو ایک وقت تک سیاسی جماعتوں کی باہم چپقلش اور رسہ کشی کو کم کرکے ایک متفقہ فارمولا پر لانے میں بڑا کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ اب جبکہ عمران خان تن تنہا اپنے خلاف صف آرا اپوزیشن سے الجھ پڑے ہیں جو گزشتہ ڈھائی سال سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے بے تاب تھی اور اس کیلئے ہر ممکنہ حربہ استعمال کرنے کی تدابیر کرر ہی تھی ۔ اس کوشش کے طریقہ کار پر ان جماعتوں کے مابین اختلافات بھی سامنے آئے ان کا شیرازہ بھی بکھرا‘ لیکن اس کے باوجود عمران خان کا تختہ الٹ دینے پر سب متفق تھے۔ دوسری طرف عمران اپنی انا کے سبب گفت و شنید کے تمام دروازے بند کرکے خود کو محفوظ سمجھتے رہے۔ مارچ کے مہینے میں جب ملاقاتوں‘ راز ونیاز اور درروازے کے پیچھے ہونے والی حکمت عملیوں کا عمران کو پتہ چلا یا یوں کہہ لیں کہ خطرہ سر پر آن پہنچا تو انہوں نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے۔ اتحادیوں اور اپنے روٹھے ساتھیوں کو منانے کی کوششیں شروع کیں‘ لیکن انہیں بہت جلد یہ احساس بھی ہوگیا کہ اب جو کچھ بھی کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔ نادیدہ حمایت کے پیغامات‘ ٹیلیفون کالز اور اشاروں کنایوں میں ہونے والی باتیں سب کچھ اور ہر طرف سناٹا اور خاموشی تھی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب قوم کو چار سال تک گھبرانا نہیں کا سبق دینے والے عمران خان پہلی بار خود گھبرانا شروع ہوگئے۔ اقتدار کی ڈور ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر عمران نے ایک نئی حکمت عملی بنائی۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عمران خان بہت سیدھے سادھے اور سیاسی پینترے بازیوں سے نابلد ہیں۔انہوں نے اسلام آباد کے جلسے میں ایک خط لہراکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دنیا کا سب سے بااثر اور طاقتور ملک امریکہ ان کی حکومت کو ہٹانے کیلئے سرگرم ہے اور اس حوالے سے اس نے پاکستان میں میرے مخالفین کو ہر ممکن تعاون اور مدد کی ہے۔ (جاری ہے)