مجھے کئی سال پہلے پاکستان میں متعین امریکی سفیر این پیٹرسن کی وہ تقریر یاد آگئی جو انہوں کراچی کی ایک تقریب میں کی تھی اور اس میں سفیر موصوفہ نے کہا تھا کہ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ پاکستان کی سب سے زیادہ امداد کرتا ہے‘ لیکن پھر بھی پاکستان کے عوام اس کے مخالف ہیں۔ کسی زمانے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان انتہائی دوستانہ مراسم تھے اور صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم چوہدری محمد علی نے ایک ساتھ امریکی امداد کیلئے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ صدر ایوب نے جب امریکا کا دورہ کیا تھا تو جان ایف کینیڈی جیسا صدر خود ایوب خان کو خوش آمدید کہنے کیلئے ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ پچاس سال پہلے تک پاکستانی بچوں کو امریکی دودھ اور گھی کے ڈبے ملتے تھے۔ اس پر دونوں ملکوں کے پرچم‘ دوستی کا ہاتھ اور تھینک یو امریکا لکھا ہوتا تھا۔ پھر 1965ء کی جنگ میں امریکہ کی جانب سے کچھ وعدہ خلافیاں ہوئیں جس کا تذکرہ ایوب خان نے اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ 1971ء کی جنگ میں امریکہ نے ساتواں بحری بیڑہ بھیجنے کا وعدہ کیا‘ لیکن وہ مدد کو نہ پہنچا۔ اس صورتحال میں اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی بائیو گرافی میں لکھا ہے کہ ہم نے 1971ء کی جنگ میں ساتواں بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کیلئے نہیں بلکہ اسے خلیج بنگال پہنچ کر کسی ہنگامی صورتحال میں مشرقی پاکستان میں رہنے والے امریکی‘ یورپین ممالک کے لوگوں کو نکالنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے بھارت کو پاکستان کے مغربی حصے پر ممکنہ حملے سے باز رکھنے کیلئے امریکہ کی طرف سے فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ نکسن نے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے روسی صدر کے توسط سے اندرا گاندھی کو بتادیا تھا کہ اگر بھارت نے مغربی حصے پر فوج کشی کی کوشش کی تو اسے 72 گھنٹے میں امریکی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صدر نکسن کے اس بیان کی تصدیق خود اندرا گاندھی نے اپنی سوانح حیات میں کی تھی۔ اندرا گاندھی نے لکھا تھا کہ ان کا پروگرام تھا کہ مونا باؤ کی سرحد سے پیشقدمی کرکے حیدر آباد تک پہنچ کر کراچی کو پاکستان کے دوسرے حصوں سے الگ کردیا جائے۔ لیکن صدر امریکہ کی واضح دھمکی کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت عمران خان نے یہ سوچا ہوگا کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو اسی طرح بھڑکایا جاسکتا ہے جس طرح چار دہائیاں پہلے بھٹو نے امریکہ کے خلاف بیانیہ بنایا تھا۔ شاید اس طرح وہ بھٹو ثانی بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن بھٹو کے خلاف امریکیوں کی مخالفت تو سمجھ میں آتی تھی جس کا اظہار لاہور ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بھٹو کو یہ کہہ کر اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ کسنجر نے کہا تھا۔ جناب وزیراعظم میں مانتا ہوں آپ مجھ سے اچھی انگریزی بولتے ہیں‘ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نیو کلیئر صلاحیت حاصل کرکے اسے پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلادیں گے تو ہم آپ کو بتادیں کہ اگر آپ نے اپنی ضد نہ چھوڑی تو ہم آپ کو عبرت کی تصویر بنادیں گے۔ سمجھ نہیں آیا کہ عمران خان نے ایسا کیا کردیا کہ امریکی ان کے درپے ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی جو اپنی آنکھوں میں یقینا اب تک ایک ایسے حکمران کی آمد کے خواب سجائے بیٹھے ہیں۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو بھی نئی حکومت آتی ہے ہم اس میں کیڑے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ اب عمران نے امریکہ مخالف جو بیانیہ بنایا ہے اس پر ان کے سپورٹر پوری توانائی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ صحیح ہے یا غلط لیکن عمران یہی تاثر دے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف پوری جرأت سے کھڑے ہوگئے ہیں‘ ڈٹ گئے ہیں۔ پھر وہ یہ بات کہتے بھی جارہے ہیں اور پیچھے بھی ہٹ رہے ہیں۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے ان کی آواز میں صدمہ اور غصہ بھی کم ہورہا ہے۔ جو پشاور میں کہہ رہے تھے وہ کراچی میں نہیں کہا اور جو کراچی میں کہا وہ لاہور میں نہیں کہیں گے۔ انہیں بدستور اپنی غلطیوں کا بھی ادراک ہورہا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں میں نے کئی غلطیاں کیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ہماری غلطی تھی۔ انہوں نے نواز شریف کو باہر بھیج کر غلطی کی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو پہلے وہ اچھی سلیکشن کہہ رہے تھے اب اسے غلطی کہہ رہے ہیں۔ عمران خان کو یہ بھی اندازہ ہورہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی متعدد حلقوں میں میرٹ کو نظر انداز کیا تھا۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں اپنی تمام غلطیوں اور غلط فیصلوں کو دوسروں کے سر پر منڈھ رہے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی تو یہ جمہوری اقدار کیلئے بہتر ہوتا اور وہ اپنی برطرف کیلئے کسی بہانے کو آڑ نہیں بناسکتے تھے۔ وہ ابھی تک نہیں بتاپارہے کہ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کیلئے عثمان بزدار جیسا نایاب ہیرا کہاں سے حاصل کیا۔ وہ یہ بھی نہیں بتارہے کہ انہوں نے چوہدری سرور کو کیوں گورنر شپ سے ہٹایا۔ انہیں شاید یہ بھی جلد احساس ہوجائے گا کہ ا ن سے کہاں کہاں آئین شکنی ہوئی۔ صدر عارف علوی ایک اچھے اور سلجھے ہوئے سیاسی ذہن رکھنے والے انسان ہیں‘ لیکن وہ اس وقت جو کچھ کررہے ہیں اس نے ان کی شخصیت متاثر ہوئی۔ ا تنے بلند ترین عہدوں پر پہنچ کر ا یسے حربے اچھے نہیں لگتے ۔ پھر کیاعمران خان بتا سکتے ہیں کہ ا ن پر توشہ خانے کے تحائف بیچنے کا الزام کیوں ہے۔ آپ کا تحفہ آپ کی مرضی ٹھیک ہے‘ اگر یہ تحفے آپ اپنے پاس رکھ لیتے پھر بھی غنیمت تھا۔ خان صاحب میرا تحفہ‘ میری مرضی کا سلوگن آپ کو نہیںجچتا ۔ (ختم شد) ٭٭٭٭٭