مسلسل بارش ہو رہی ہے ۔بارش کی بوندیں جب زمین سے ٹکراتی ہیں عجیب ردھم کا احساس ہو رہا ہے۔ بوندوں کی جلترنگ دور بہت دور کی یادوں کو قریب لا رہی ہے۔قتیل مرحوم کا ایکسپریشن ہے۔۔۔گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں۔۔کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے۔یہاں معاملہ پازیب کا نہیں،فلمی یادوں ،فلمی باتوں کا ہے۔مسقط میں ایک ہندو جوتشی نے میرا زائچہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ تم ہمیشہ ماضی میں رہو گے۔ہم ہندئوں کی بات کہاں مانتے ہیں کہ ہم ٹھہرے مسلمان۔مگر انسان واقعی کبھی کبھی ماضی کی گرفت میں خود کو مکمل قیدی اور بے بس محسوس کرتا ہے۔کبھی کھوئے ہوئوں کی جستجو کہیں ماضی کے چہرے،گزرے ہوئے مناظر۔۔سُنی ہوئی آوازیں۔ شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ آنکھ کھل جاتی ہے جب رات کو سوتے سوتے۔۔ذہن و وجدان میں یوں فاصلے تن جاتے ہیں۔۔شام کی بات بھی لگتی ہے بہت دور کی بات۔زندگی اپنے اپنے گمان کا اور اپنے اپنے دیکھنے کے انداز کا نام ہے۔اس وقت شدت سے70 اور80کا سینما، فلمسٹارز اور فلم کے لوگ بُری طرح یاد آ رہے ہیں۔وہ نغمے اور باکمال پکچرآئزیشن ۔وہ لکھنے والے اور میوزیشن۔۔ایک ٹھنڈی سانس ہی بھری جا سکتی ہے صرف۔مجھے ماسٹر عبداللہ،ماسٹر عنایت۔۔خواجہ خورشید انور اور خواجہ پرویز کے علاوہ نثار بزمی اور حسن طارق بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں۔وحید مراد پر پکچرائز گانا۔۔کچھ لوگ روٹھ کر بھی۔۔۔ان دنوں فلمی ستارے زیادہ تر سمن آباد اور گلبرگ میں رہتے تھے۔یہ68-69کی بات ہے۔سڑکوں پر گاڑیاں بھی کم ہوتی تھیں اور ٹریفک کا شور بھی نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی سڑکوں پر اس قدر زیادہ ایسے لوگ جو اجنبی لگتے تھے۔ان دنوں ہمJ-Blockگلبرگ میں رہتے تھے اور فلمسٹار فردوس تازہ تازہ اندرونِ شہر سے سامنے والی کوٹھی میں شفٹ ہوئی تھیں۔ان کی یادوں اور باتوں کا ایک پورا دبستان ہے۔اپنی وفات سے چند ماہ قبل وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں مل گئیں۔اپنے بڑوں کا نام بتایا تو پہچان کر کہنے لگیں۔تم---ہونا۔میرا نک نام لے کر۔اتفاق سے جب اکمل مرحوم کی ڈیتھ ہوئی تو تب بھی میں اُسی گھر میں تھا اور اکمل مرحوم کے آخری لمحات سڑک پر تھے۔ فلم پر ایک پروگرام کرنے چند سال پہلے ایورنیو سٹوڈیو جانے کا موقع ملا۔مشہور فلم ڈائریکٹر اسلم ڈار صاحب سے سب سے پہلا مکالمہ تھا۔کیمرہ مین۔۔کیمرہ سیٹ کر رہا تھا اور لائٹ مین۔۔لائیٹس کے زاویے۔میں اور ڈار صاحب چائے پی رہے تھے۔میں نے کچھ سوچتے اور ججھکتے ہوئے اُن سے ایک ذاتی سوال پوچھ ہی ڈالا۔میں نے کہا"ڈار صاحب تسی فلم سٹار ترانہ نوں جاندے او"؟ڈار صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ڈھیر سارا۔تو پھر میرے ذہن میں ایک منظر پھنس سا گیا ہے۔مجھے بتائیے کہ کیا یہ درست ہے؟یہ کون سا سال ہو گا؟ڈار صاحب نے کہا بتائیے۔گلبرگAبلاک ہے۔فلم سٹار ترانہ کا گھر ہے،اُن کے گھر کی پچھلی جانب ایک برآمدہ ہے۔اُس میں فرش پر ایک پرانا صوفہ رکھا ہے۔اُس پر آپ،فلم سٹار ترانہ اور نصر اللہ بٹ بیٹھے ہوئے ہیں اور۔اورآپ کے پائوں کے پاس فرش پر یا کارپٹ پر سلطان راہی بیٹھے ہیں۔ڈار صاحب نے تقریباً سیٹ سے اچھلتے ہوئے جو کہا وہ تو نہیں لکھ سکتا مگر سال انہوں نے بتا دیا۔ساٹھ کی دہائی تھی۔یہ وہی فلم سٹار ترانہ ہیں جن کا جنرل یحییٰ سے رومانس اور لطیفہ بڑا مشہور ہے۔جب اندر گئیں تو ترانہ تھیں،جب باہر نکلیں تو قومی ترانہ تھیں۔ترانہ کے والد فوج میں کرنل تھے اور ان کی والدہ ایرانی النسل تھیں۔یہ پانچ بہنیں تھیں۔ترانہ سب سے بڑی تھیں۔اُن کے دو بھائی تھے۔ایک کا نام آغا سجاد تھا۔۔جرمنی چلے گئے تھے۔۔اب پتہ نہیں زندہ ہیں یا۔ان کے پیچھے والے گھر میں ٹرپل سٹوری گھر کے ٹاپ فلور سے یہ منظر میں نے د یکھا تھا۔شعور سے چپک کر رہ گیا۔ڈار صاحب سے اس پر جو گفتگو ہوئی وہ آف دی ریکارڈ ہے۔ اب جس گھر اور اس کی یاد کا ذکر کر رہا ہوں وہ ایچ بلاک گلبرگ تھری میں ہے۔اب وہاں مولا جٹ کے شہرہ آفاق لکھاری ناصر ادیب رہتے ہیں۔اس گھر کے سامنے سڑک پار کر کے سیمنٹ رنگ کی ایک کوٹھی تھی۔یہاں پہلے فلسٹار آصفہ رہتی تھیں۔وہ اس بازار سے آئی تھیں۔پھر ایک اداکار کے عشق میں خودکشی کر لی۔پھر وہاں بابرہ شریف رہنے لگیں۔ان کے والد کا نام شریف تھا۔وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ پکوا کر آس پڑوس کی کوٹھیوں میں بھجوایا کرتے تھے۔ ایک دن کوئی مذہبی تہوار تھا۔ ہمارے گھر میں حلوہ اور نان تیار ہوئے اور پڑوسیوں میں بانٹے جانے لگے۔میں نے ڈرتے ڈرتے نانی سے کہا کہ کیا بابرہ کے گھر یہ نان اور حلوہ نہیںبھجوانا؟انہوں نے مسکرا کر کہا۔۔سوچتے ہیں۔۔دیکھتے ہیں۔وہ میری بے چینی کا لطف اٹھا رہی تھیں۔جب میرا اصرار بڑھا تو انہوں نے مجھے ایک ٹرے میں حلوے کی پلیٹ،نان بمعہ دستر خوان پکڑائے اور کہا ملازم تمہارے ساتھ جائے گا۔مگر میں نے کہا آپ اوپر ٹیرس سے دیکھتی رہیں۔۔ملازم رہنے دیں۔میں بابرہ شریف کو دیکھنے کیلئے سڑک پار کر کے سامنے والے گھر میں پہنچ گیا۔گیٹ کھلا ہوا تھا۔آگے نوکر بھی کھڑا تھا۔مجھے بچہ جان کر وہ گھر کے اندر لے گیا۔پیرٹ گرین کلر کے بیل باٹم ٹائپ ڈریس میں دو پونی ٹیلز کے ساتھ ایک لڑکی آئی اور مجھ سے ٹرے لے کر بولی، تھینک یو۔۔شکریہ۔میں نے اسے کہا مجھے بابرہ شریف سے ملنا ہے۔وہ کہنے لگیں۔۔مل لو،میں ہی بابرہ ہوں۔میں نے کہا۔۔تم بابرہ نہیں۔۔خُدارا،بابرہ کو بلائو۔میں اس کے پیچھے بیڈ روم کے دروازے کو دیکھتا رہا کہ شاید بابرہ اس دروازے کے پیچھے ہے۔وہ کہتی رہی مگر میں اسے جھوٹ سمجھتا رہا کہ وہ بابرہ ہے۔خالی ٹرے لے کر میں بڑے مایوس کن انداز میں واپس آیا۔گھر کے ٹیرس سے مجھے جاتا اور آتا گھر کے کافی لوگ دیکھ رہے تھے۔مجھے پوچھا موڈ کیوں خراب ہے؟انہیں بتایا کہ انہوں نے مجھے بابرہ سے نہیں ملنے دیا۔سب ہنس پڑے اور کہنے لگے"بے وقوف بچے۔۔یہی تو تھی بابرہ شریف"۔ناصر ادیب صاحب کے گھر کے باہر کھڑا،گئے دنوں کے سراغ تلاش کر رہا تھا۔سامنے وہ گھر بھی تھا جس کی چھت پر علائوالدین مرحوم پتنگ کے پیچ لڑایا کرتے تھے۔اسی روڈ پر آگے جا کر فلسٹار سلونی بھی رہتی تھیں۔باقی پھر سہی۔