غزل وہ بددعا ہے جو ہر شاعر کو لگتی ہے۔ پرچے اور خرچے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔مدیر کو پرچے کے صفحات کا تعین علم الاعداد کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ علم الکلام مذہب سے متعلق ہے اور کلام العلم ادب سے۔کچھ ادبا ہر دفعہ پرچے کی زینت بنتے ہیں البتہ اس سے پرچے کی زینت میں شاید ہی اضافہ ہوتا ہو۔دو ناراض شاعر اگر ویسے ایک دوسرے کو نہ ملیں خطوط کے سیکشن میں ضرور ملیں گے۔ادبی جریدہ وہ کنواں ہے، جس سے بعض ادیب زندگی بھر نہیں نکلتے۔آخر اور کنوئیں بھی ہوتے ہی ہوں گے۔کبھی ادبی جرائد کی مجلس ِادارت ہوتی تھی، اب ادبی مدارت ہوتی ہے۔مدیر اپنے سالانہ خرچ کے ساتھ ساتھ لکھاریوں کی زبانی جمع خرچ کا بھی حساب رکھتے ہیں۔شاعر جب ایک رسالے میں شائع ہونا شروع ہوتا ہے تو اس وقت تک اس پرچے سے اس کا قلمی تعاون جاری رکھتا ہے جب تک پرچہ یا وہ زندہ رہتا ہے۔جدید تنقید یعنی تھیوری پرچے کا وہ سیکشن ہوتا ہے جسے نہ مدیر پڑھتا ہے نہ قارئین۔کشمیریات کی طرح مدیریات بھی باقاعدہ ایک موضوع ہے کہ مدیر بھی ہمہ وقت جنگ میں مصروف رہتا ہے۔زیادہ حملے وہ زرِتعاون کے محاذ پر کرتا ہے۔خدا نہ کرے راؤ انور کسی پرچے کا مدیر بن جائے وہ شعرا کو ماورائے اشاعت کر کے مار ڈالے گا۔جدید نظم بھی ایک گورکھ دھندا ہے اور اندھا دھند گورکھ دھندا ہے۔ نظم ِجدید کی اصطلاح ذرا مبہم ہے اسے نظم ِ بعید کہنا زیادہ مناسب ہے۔بعض شاعر رسالوں میں چھپتے نہیں چْھپتے ہیں۔پرچوں کے مدیران ستاروں کی وہ کہکشاں ہیں جس سے اب بھی راستے منور ہیں۔سر سید احمد خان، نیاز فتح پوری، اختر انصاری اکبر آبادی، عبدالقادر، احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا اور محمد طفیل جیسے اعلٰی دماغ لوگ تھے یقین نہیں آتا وہ مدیر بھی رہے ہوں گے۔سلیم الرحمان مشکل مدیر ہیں، ان کو مشکل نظمیں بھی مشکل سے پسند آتی ہیں اسی لیے عبدالرشید کی نظمیں شوق سے شائع کرتے ہیں۔لکھاریوں کی جانب سے مدیر کو کیا کیا نہیں سننا پڑتا، سو ادبی جریدے کی پیشانی پر ادبی جریدہ سردوگرم چشیدہ جلی حروف میں لکھا ہونا چاہیے۔مدیر کے لیے پرچہ نکالنا گھاٹے کا سودا ہے حبیب جالب ہوتے تو آٹے کا سودا کہتے اور اس پر نظم لکھ دیتے۔آخر عیوب خان کے خان خلاف بیس روپے کا من آٹا بھی انہوں نے ہی لکھا تھا۔ادبی جریدہ وہ مبارک صندوق ہے جس میں عہد محفوظ ہوتا ہے۔مدیر کو لکھاریوں سے زیادہ حواریوں کی ضرورت ہوتی ہے کم از کم ہمارے دو ادبی گرؤوں نے تو ہمیں یہی سکھایا ہے۔مگر شاہد علی خان اس سے بے نیاز ہیں۔اور فہیم انصاری مدیر اجمال لکھاریوں کے نیاز مند ہیں۔نصیر احمد ناصر کا بس چلے تو پرچے کی پیشانی پر ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں لکھوا لیں۔آج کل ہجویہ اشعار نہیں ہجویہ افکار کا دور ہے، بے شک جرائد کا آخری سیکشن دیکھ لیں۔ہمیں ادب میں چار عشرے ہو چکے ہیں مگر دو چیزوں کی اردو ادب میں سمجھ نہیں آتی ایک وہ تنقیدی مضامین جو تھیوری کے متعلق ہوتے ہیں اور دوسری وہ آزاد نظم جو ہم لکھتے ہیں۔ادبی جریدہ مدیر کا اعمال نامہ ہوتا ہے۔ قیامت والے دن یہ اس کے بائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا۔جریدے کو اچھا برا لکھاری بناتے ہیں مگر اس کا ذمہ دار مدیر ہی ٹھہرتا ہے۔پرچہ پرچہ ہی ہوتا ہے خواہ گلزار جاوید کا چہار سو ہی کیوں نہ ہو۔نقوش نے ادبی دنیا میں جو نقش جمایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔نقوش کا آپ بیتی نمبر دیکھ کر حیرت ہے کہ محمد طفیل نے کیسے ان لوگوں سے رابطہ کیا اور انہوں نے آپ بیتی نمبر میں لکھا۔اس فہرست میں جواہر لال نہرو، ذوالفقار علی بھٹو، جمال عبدالناصر، رابرٹ فراسٹ اور صلاح الدین لبنان شامل ہیں۔ان کے علاوہ آئزن آور چرچل طہٰ حسین اور رضا شاہ پہلوی بھی شامل ہیں۔ان کو سامنے رکھ کر آج کل کے مدیران کو دیکھ لیں ہنسی کا فوارہ چھوٹ جاتا ہے۔ایک شاعر نے اپنی سوانح پاپ بیتی کے نام سے لکھی تھی۔ان کے پاپ بھی ان کی غزل کی طرح بے ضرر تھے۔ وہ یورپ میں مقیم تھے انہیں پوپ بیتی لکھنی چاہیے تھے شاید کوئی کام کا نکتہ ان کے ہاتھ لگ ہی جاتا۔نثری نظم کے اور فوائد کے علاوہ ایک فائدہ یہ ہے کہ پرچے کا پیٹ بھر جاتا ہے۔نثری نظم ایک لاولد صنف ہے نہ اس کے ماں باپ ہیں اور نہ اولاد۔دنیا نے ایک دن ختم ہو جانا ہے شاعروں نے ختم نہیں ہونا۔ہمارے ایک ناراض دوست پرچوں کی بکری (بَکری نہیں ) کے متعلق گریہ کناں رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پرچے کی دس دس کاپیاں مختلف شہروں کے بک سیلرز اور بک سٹالز کو بھیجتے رہتے تھے۔کافی عرصہ گزرنے کے بعد ان شہروں کے بک سیلرز سے رابطہ کیا اور پرچوں کی سیل کی رقم کے بابت پوچھا۔جواب ملا آئندہ پرچے بھیجنے کی زحمت سے گریز کیجیے اور فون کرنے سے پرہیز کریں تو اور مناسب ہے۔جدید نظم کا مرض ایسا مرض ہے کہ جس کی سمجھ نہ مریض کو آتی ہے نہ ڈاکٹر کو۔علاج تو بعد کا مرحلہ ہے۔شاعر وہ جن ہے جو رسالے سے چمٹ چمٹ جاتا ہے۔مدیران ادبی رسائل کا رونا روتے ہیں اور اکیڈیمی ادبیات کے کارپردازان مالی وسائل کا۔دو شاعر آپ کو ہر رسالے میں ملیں گے جس ماہ ان کی کوئی چیز شمارے میں شائع نہ ہو طویل خط لکھ دیتے ہیں اور آخر میں لکھتے ہیں یار زندہ صحبت باقی حالانکہ انہوں نے قاری کو لکھ لکھ کر ادھ موا کر دیا ہوتا ہے۔جب کوئی جریدہ بالاخر انتقال کر جاتا ہے یعنی بند ہو جاتا ہے تو مدیر کے حق میں بھی یہی دعا کرنے کو جی کرتا ہے۔فہیم اعظمی ایک پرچہ صریر نکالتے تھے ان کے ساتھ کوئی اختلاف کرتا تو اسی پرچے میں اس ادیب کے خلاف لمبے لمبے کمنٹس کرتے۔ان کمنٹس سے کافی صفحات پر ہو جاتے تھے۔مدیر کی مدح سرائی بھی آداب ِرسائل کا لازمی حصہ ہے اصل میں یہ مدیر کے لیے مدح سزائی ہوتی ہے۔ادبی مدیر وہ سسر ہے جس سے داماد خوش نہیں ہوتا اور ادبی برادری وہ ساس ہے جو کسی آنے والی نئی نویلی دلہن سے راضی نہیں رہتی۔ عطاالحق قاسمی میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آج کل بہت ضخیم پرچے شائع ہوتے ہیں یہ ادبی دنیا میں آلہ ِقتل کے نام سے مشہور ہیں کہ دوبدو لڑائی میں یہ پرچے اینٹ کا کام دیتے ہیں۔