جیسے دانش کی بددیانتی ہوتی ہے ویسے ہی جمہوریت کی کساد بازاری بھی ہوتی ہے۔اس کساد بازاری میں ووٹ ووٹر اور انتخابات کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی اور یقین سا ہو چلا ہے کہ اس کی چنداں ضرورت بھی نہیں۔جمہوریت ایک دھندا ہے بلکہ گورکھ دھندا ہے۔ووٹ ایک اوٹ ہے۔کم از کم تازہ انتخاب کے نتائج تو یہی ظاہر کرتے ہیں۔یہ اوٹ بھی مقتدرہ کا اختیار بن گیا ہے۔جمہوریت کو ساجھے کی ہنڈیا کہا جاتا ہے اسی لیے بیچ چوراہے کی پھوٹتی ہے۔سیاست جمہوریت کی جان ہے اور یہی سیاست جمہوریت کا گلہ گھونٹنے میں دیر نہیں لگاتی۔ہمارا ملک ملک ِخداد نہیں بلکہ مَلک خداد داد کی ملکیت ہے۔جمہوریت میں ایک قرار داد مقاصد ہوتی ہے جو اصل میں بے مقاصد ہوتی ہے۔جمہوریت میں ایک پانچ سال کا عرصہ بھی ہوتا ہے جو سیاست دانوں کے لیے بسا اوقات پچاس سال کے برابر ہوتا ہے۔ووٹر ووٹ ضرور دیتا ہے مگر انتخاب کوئی اور کرتا ہے۔جمہوریت ایک جنگ ہے جس میں سیاست دان ہی موت کے گھاٹ اترتے ہیں اور وہی زندہ جاوید ہونے کا چانس لے سکتے ہیں۔کتنے سیاست دان زندہ جاوید ہوئے ایک آدھ اور موت کے گھاٹ ہر پانچ سال اترتے ہیں کبھی ہمارے ہاتھوں کبھی کسی اورکے، مگر باز پھر بھی نہیں آتے۔ ایک ترقی کا پانچ سالہ منصوبہ ہوا کرتا تھا۔ اب اسمبلی ممبران کی مدت پانچ سال ہوتی ہے اور یہی ان کی ترقی کا بھی منصوبہ ہوتا ہے۔پلاننگ کمشن حکومت کا ایک اہم ادارہ ہوتا ہے گویا کمشن اپنے " کمشن" کی پلاننگ کرتا ہے۔عوام کی حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے البتہ فوائد خاص خاص لوگ ہی اٹھاتے ہیں۔جمہوریت کبھی مندی نہیں ہوتی اگر جمہوریت نہ ہو ملک ذرا مندا مندا چلتا ہے۔اس وقت ایک اپنے ملک میں نہیں ساری جمہوری ملکوں میں مندا چل رہا ہے۔جمہوریت میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے جمہوریت کے۔مسلمان ممالک میں اسلامی جمہوریت سودمند ہوتی ہے۔جدید اسلامی جمہوریت میں نہ جمہوریت ہوتی ہے نہ اسلام۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جمہوریت نا مکمل ضابطہ حیات ہے کم از کم ہمیں تو یہی سبق ازبر کرایا گیا ہے۔اسلام میں نسلی سیاسی وراثت کا کوئی تصور نہیں ،پاکستانی جمہوریت عین اس کی ضد ہے۔اقبال اتنے بڑے فلسفی ہو کر بھی کچھ نہ سمجھ سکے اور فرما گئے کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اب بندوں کو تولتے ہی تو ہیں اور سونے برابر قیمت لگاتے ہیں۔وہ ساری زندگی مغربی جمہوریت کو برا سمجھتے رہے اپنے ملک کی جمہوریت دیکھتے تو اس کے قائل ہو جاتے کہ یہاں جمہوریت مسلسل ارتقا پذیر ہے فنا پذیر نہیں۔اقبال نے کہا کہ تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام اب ہوتے تو جمہوری کی جگہ مجبوری نظام کی ترکیب لاتے۔اپنے ہاں مجبوری نظام ہی تو چل رہا ہے۔برطانیہ اور موریطانیہ میں جتنا فرق ہے اتنا ہی فرق مغرب کی اور ہماری جمہوریت میں فرق ہے۔وہاں دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے جمہوریت کو زوال نہیں ۔یہاں دنیا ادھر کی ادھر کر دیں گے مگر کسی کو پوچھنے کی مجال نہیں۔پہلے کہا جاتا تھا سوال گندم جواب چنا۔ اب پوچھتے ہیں سوال گندم ہے تو نے کیا جواب چْنا؟۔جمہوریت کا قافیہ مقہوریت سب سے زیادہ قرین قیاس لگتا ہے۔جمہوریت کی اولاد نہیں ہوتی اگر کوئی نرینہ اولاد ہوتی تو اس کا بچہ جمہورا سب سے مناسب تھا۔ایک پروگرام جمہور دی آواز بھی ہوا کرتا تھا۔تب بھی صرف پروگرام ہی تھا جمہوریت نہیں تھی البتہ جمہور موجود تھی جیسے آج بھی موجود ہے۔اب نہ وہ ریڈیو پروگرام ہے اور نہ جمہوریت۔تب لوگ ریڈیو سنتے تھے اب جمہوریت کے بارے میں ہمیں بہت کچھ سننا پڑتا ہے۔اس کے بارے میں کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔جمہوریت جمہور کے لیے نہیں جمہور جمہوریت کے لیے ہوتے ہیں۔جہاں جمہوریت نہیں ہوتی وہاں جمور ہوتا ہے۔ الیکشن میں ایکشن نہ ہو تو الیکشن ایک بے مزہ سی سرگرمی لگتی ہے۔اس سر گرمی میں گرمی بالکل بھی موجود نہیں ہوتی۔ٹھنڈ ماحول ہوتا ہے۔دو اور دو چار ہوتے ہیں یہی جمہوریت ہے اور دو اور دو بائیس ہوتے ہیں الیکشن کمشن کا حاصل جمع ہے۔آنکھوں والے انصاف کی دہائی ہے اس کو آپ تحریک انصاف کی دہائی نہ سمجھ لیں۔موت کا ایک دن معین ہے اس کو ہی تو الیکشن کمشن نے غلط ثابت کیا ہے۔نیند کیوں رات بھر نہیں آتی یہی سوال سنی اتحاد کونسل کرتی ہے۔حامد رضا صاحب زادہ بھی ہیں عالم بھی اور ہمارے مسلکی بھائی بھی۔وہ مزے میں ہیں اور نیند کی خماری میں ہیں۔اس کو کہتے ہیں خدا جب دیتا ہے چھپر پھاڑ کر دیتا ہے اور لیتا بھی چھپر پھاڑ کر ہی ہے۔یا شادی پر دلہن کو روپ چڑھتا ہے یا پانچ سالوں بعد الیکشن کمشن کو۔شادی سے اگلے دن دلہن کا روپ اتر جاتا ہے اور الیکشن کے بعد الیکشن کمشن کا۔ساری طاقت الیکشن ٹربیونل کو منتقل ہو جاتی ہے۔الیکشن کمشن وہ ساس ہے جو سن 24 کے انتخابات دلہن کو سینگوں پر اٹھائے پھر رہی ہے نہ گراتی ہے نہ پٹختی ہے۔تحریک انصاف وہ سانڈ ہے جس کی گردن دن بدن موٹی ہو رہی ہے۔دھاندلی ایک دھندہ ہے اور اندھا دھند دھندا ہے۔ہماری جمہوریت کا مابہ الامتیاز بھی یہی ہے۔ہماری والی جمہوریت یعنی پیارے ملک کی طرح کی جمہوریت بنگلہ دیش مصر اور ایک آدھ اور مسلم ملک میں کامیابی سے چل رہی ہے مگر جو بات اپن کی ہے وہ اور کہاں۔ ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سِن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدِن کی سی ہمارا ملک دنیا میں ایک الگ ہی نمونہ ہے۔ بازاری ہونا بہت برا ہے مگر اس سے بھی بری کساد بازاری ہوتی ہے خواہ کسی جنس کی انسانیت کی یا جمہوریت کی۔جمہوریت کی کساد بازاری آج کل اِن ہے۔