میلہ ہمارے کلچر کا ایک خوبصورت چہرہ ہے آج کل تو خیر معاشی بحران نے جہاں لوگوں کی ضروریات کو محدود کر دیا وہیں اس کلچر پر بھی کافی قدغن لگا ہے۔ ایک کمرے میں اگر ایگزاسٹ نہیں ہوگا کوئی کھڑکی نہیں ہوگی تو وہاں ہر وقت حبس گھٹن ہی ہوگی۔ میں اسے قوموں کا ایگزاسٹ فین سمجھتا ہوں۔ میلے میں جھولے سرکس تھیٹر دنگل بیل دوڑ نوحے دوحے شاعری ہوتی ہے اور لوگ طرح طرح کی چیزیں خریدتے اور کھاتے ہیں۔ ہمارا الیکشن بھی ایک میلہ ہی ہے۔ ڈیرے سج جاتے ہیں ہر وقت دودھ پتی والی چائے اور کھانے چل رہے ہوتے ہیں بڑی دلچسپ گرما گرم بحث مباحثہ اور اندازے لگائے جا رہے ہوتے ہیں۔ چوہدری صاحب مرکز نگاہ ہوتے ہیں ویسے تو ہر وقت سب سے مختلف لباس زیب تن کیے ہوتے ہیں مگر الیکشن میں کچھ خاص اہمیت درکار ہوتی ہے۔ 20 25 افراد کا ایک ٹولہ ہر وقت چوہدری صاحب کے ساتھ ہوتا ہے ایک ہی رنگ کی مہنگی ترین گاڑیاں شہر اور مضافات میں دھول اڑاتی ہوئی جا رہی ہوتی ہیں۔ گاڑی میں ہی پھول اور ہار رکھے ہوتے ہیں ایک آدمی بڑی چستی سے وہ میزبان کو دیتا ہے اور وہی پھول چوہدری صاحب پر اور ان کی گاڑی پر نچھاور کیے جاتے ہیں اور ہار بھی پہنا دیے جاتے ہیں۔ آج کل موبائل کا دور ہے اب تو یہ سب کچھ لائیو دکھایا جا رہا ہوگا۔ پچھلے الیکشن میں ایم پی اے نے 30 سے 40 کروڑ کا بجٹ رکھا ہوا تھا اور ایم این اے نے 60 سے 70 کروڑ مطلب آئندہ الیکشن میں یہ رقم ڈبل ہو جائے گی یہ پیسے خرچ کہاں ہوتے ہیں صاف نظر آرہا ہوتا ہے۔ سرعام ووٹ خریدے جاتے ہیں 25 سے 30 فیصد اور بعض علاقوں میں نصف سے بھی زیادہ ووٹ برادری کا ہوتا ہے جسے شو کر کے امیدوار میدان میں اترتا ہے ایک فہرست بنائی جاتی ہے ناراض لوگوں کی اور پھر ایک ایک کر کے ہر حربہ استعمال کر کے ان کو راضی کیا جاتا ہے اور بعد ازاں وہ چوہدری صاحب کے ساتھ ایسے چل رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اصل مقابلہ چوہدریوں کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ چند ایک نے مشہوری کی خاطر کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہوتے ہیں نہ کوئی دفتر نہ مشہوری کے لوازمات بس بیلٹ پیپر پر نام کا آنا ہی اعزاز بن جاتا ہے۔ میں نے ایک وزٹنگ کارڈ دیکھا تھا جس پر عہدے کی جگہ سابقہ امیدوار برائے قومی اسمبلی لکھا ہوا تھا۔ ابھی کچھ ماہ قبل کاغذات نامزدگی جمع کروائے جا رہے تھے تو یقین جانئے مہنگی ترین ایک ہی رنگ کی گاڑیاں مخصوص لباس پہنے آٹومیٹک اسلحہ سے لیس محافظوں کے ساتھ جلوس جا رہا تھا سوچنے لگ گیا آس پاس کھڑے ہجوم کو دیکھ کر کہ کن سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ ان کے مسئلے حل کریں گے۔ کیسا نظام ہے کہ عام آدمی بھی کاغذات نامزدگی جمع کروا سکتا ہے مگر اسے خود یقین ہوتا ہے کہ وہ وہ جیت نہیں سکے گا۔ آج بھی بہت سے حلقوں میں ون ٹو ون مقابلہ ہوتا ہے ہر شہر میں صاف پتہ چل جاتا ہے کہ ان دو یا تین افراد میں سے کوئی ایک جیتے گا۔ سب سے اہم پارٹی کا ٹکٹ ہوتا ہے اور اس وقت پورے پاکستان میں کوئی ایک بھی نظریاتی پارٹی نہیں۔ الیکشن کمیشن کو سب پتہ ہے اور اخراجات کی حد بھی مقرر ہے مگر مجال ہے کوئی پوچھے پورا الیکشن بااثر اور امیر ترین لوگوں نے یرغمال بنایا ہوتا ہے۔ ہر الیکشن میں خون خرابہ قتل و غارت دشمنیاں جنم لیتی ہیں اور ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اسے خونی میلہ کہا جانا چاہیے۔ پوری دنیا نے ان مسائل کو حل کر لیا حتی کہ ہمارے ہمسائے انڈیا میں بھی الیکشن کمیشن اور اس کے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے نتائج پر اعتراض نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں دیکھ لیجئے فروری میں الیکشن ہے اور ابھی سے اسے مشکوک بنانے کی کوششیں شروع ہو جائیں گی۔ کہنے کو الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے مگر پھر یقین کیوں پیدا نہیں کر سکا۔ قوم بھی بھول جائے گی مہنگائی کے طوفان کو پٹرول بجلی گیس کی قیمتوں کو اور اس میلے میں ہر کوئی جت جائے گا۔ ایک ہیجان شروع ہونے کو ہے تبصرے تجزیے شرطیں دعوے وعدے پتہ نہیں کیا کچھ یعنی میلے میں بیل دوڑ بھی ہوتی ہے اس دوڑ میں ہر طرف دھول ہی دھول اڑ تی ہے اور دیکھنے والوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون جیتا کون ہارا پھر اچانک سپیکر سے اعلان ہوتا ہے کہ فلاں جیت گیا اور فلاں ہار گیا اور پھر کچھ تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں اور کچھ چہرے اتر جاتے ہیں۔ جب تک ہم الیکشن کمیشن کو مضبوط خود مختار اور قابل اعتماد نہیں بنائیں گے یہ سب کچھ یوں ہی چلتا رہے گا۔ جیتنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے جیتا اور ہارنے والے بھی بے خبر نہیں ہوتے۔ ایسے الیکشن کے بعد یہی لوگ اسمبلیوں میں جاکر سب سے پہلے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی جیب سے تھوڑی لگاتا ہے یا لٹاتا ہے۔ نسل در نسل یہ سلسلہ چل رہا ہے عوام بھی شا ید عادی ہوچکے ہیں کہ اقتدار پر صرف یہی لوگ آنے چا ہیے یا یہ انہی کا حق ہے۔ کاش ہمارا الیکشن کا نظام عالمی معیار کے مطابق ہوجائے ۔ کیا ہم دوسرے ممالک میں ہونے والے الیکشن نہیں دیکھتے مجال ہے کہ نظام جامد ہو ۔لوگ کام پر بھی جارہے ہوتے ہیں اور ووٹ کا حق بھی استعمال کررہے ہوتے ہیں ہارنے اور جیتنے والے ایک دوسرے کو گلے بھی لگا رہے ہوتے ہیں اور خوشدلی سے نتائج بھی تسلیم کیے جاتے ہیں ہم دنیا سے کچھ تو سیکھ لیں آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ چار پانچ قابل اعتماد الیکشن ہمیں بہترین لوگ اور کامیاب جمہوریت دے سکتے ہیں جس سے یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر چل نکلے گا۔