تھیو ڈور روز ویلٹ نے کہا تھا بہترین ایگزیکٹو وہ ہوتا ہے ،جس میں اتنی سمجھ ہو کہ وہ جو کرنا چاہتا ہے اس کے لئے باصلاحیت اور بہترین ٹیم ناصرف منتخب کرے بلکہ ٹیم کو ٹارگٹ دے کر اس کے کام میں بلا جواز مداخلت اور روک ٹوک سے بھی اجتناب کرے۔ باصلاحیت قیادت کی پہچان میکس بی ویل نے یہ بتائی کہ وہ نہ صرف راستہ جانتی ہے بلکہ اس راستے پر چلتے ہوئے دوسروں کو بھی راستہ دکھاتی ہے۔اب اسے ستم ظریفی کہیے یا پاکستانیوں کی بدقسمتی کہ پاکستان میں جو بھی حکومت آئی صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور ذاتی مفادات کے تحفظ میں جتی رہی کسی بھی حکومت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ملک ملکی اداروں اور پاکستانیوں کی ترقی و بہبود کے لئے سوچے۔اس مفاد پرستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی ادارے تباہ اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے، حکمرانوں قومی وسائل لوٹنا اور اداروں کو تباہ کرنا شروع کر دیا ،جن اداروں کو ملکی ترقی میں معاون بننا تھا وہ حکمرانوں کی غفلت اور مفاد پرستی کی وجہ سے ریاست پر بوجھ بن گئے۔ حکومتوں کے دعوے اور وعدے اپنی جگہ کارکردگی کا اندازہ خود حکومتی رپورٹ سے ہو جاتا ہے۔2016-17ء میں ریاستی اداروں کا خسارہ 287بلین تھا مئی 2022ء میں 1.74ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ۔حکومت کسی بھی پارٹی کی رہی ہو، کسی نے بھی ریاستی اداوں کو خسارے سے نکالنے اور انہیں نفع بخش نہ سہی اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل بنانے کے لئے اقدامات بھی نہیں کئے بلکہ ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر غالب کی طرح اس خوش فہمی کا شکار رہے: قرض کی پیتے تھے مئے اور سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن قرض کی مئے میں مست حکمرانوں نے پاکستان کو 126ارب ڈالر کا مقروض کر دیا۔ان مشکل حالات میں پنجاب میں نگران حکومت نے صوبے کے معاملات میں بہتری کی ٹھانی ۔نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اداروں کی خود انحصاری کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔اداروں کی کارکردگی کا انحصار ویژن اور حکومتی اقدامات پر ہوتا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبائی اداروں کی بہتری اور خود انحصاری کے لئے کیا اور کیسے کام کر رہے ہیں، اس کی بہترین مثال وزارت اوقاف اور مذہبی امور ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی ٹیم منتخب کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے کہ انہوں نے محکمہ اوقاف کے سیکرٹری کے لئے اسی ادارے میں بطور ڈی جی کام کرنے والے ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کا انتخاب کیا اور انہیں ادارے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا ٹاسک دے کر آزادی سے کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔یہ وزیر اعلیٰ کے ٹیم کے کام میں مداخلت نہ کرنے اور ٹیم پر بھروسہ کا ہی ثمر ہے کہ آج محکمہ اوقاف صوبے کے دوسرے اداروں کے لئے مثال بن رہا ہے۔ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کے 2023ء کے اثرات محکمہ اوقاف میں واضح دکھائی دینے لگے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے کہ ادارے کو ملازمین کے خلوص عمل کے بغیر پائوں پر کھڑا کرنا ممکن نہ ہو گا اور ملازمین ادارے کی بہبود و ترقی کے لئے اس وقت ہی کام کریں گے جب خود معاشی پریشانیوں سے آزاد ہوں گے اس لئے انہوں نے اپنی ٹیم کو ٹاسک دینے سے پہلے ان کی تنخواہوں میں ممکن حد تک اضافہ کیا جو ملازمین ترقیوں اور سروس سٹریکچر کی وجہ سے پریشان تھے ان کے مسائل حل کئے پھر ان سے کارکردگی دکھانے کا مطالبہ کیا۔ملازمین کے جب مسائل حل ہوئے تو انہوں نے بھی جی جان سے ادارے کی بہتری کے لئے دن رات ایک کیا۔محکمہ اوقاف نے ملازمین کو مراعات کی حد میں اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لئے صوبائی حکومت سے گرانٹ کی درخواست کرنے کے بجائے ادارے کی آمدن بڑھانے کا فیصلہ کیا ۔سب سے پہلے اوقاف کی اراضی جو سات دھائیوں سے سیاسی رشوت کے لئے برائے نام رقم کے عوض لیز پر دی جا رہی تھیں اس کو مارکیٹ ریٹ پر لیز کرنے اور سیاسی اثر ورسوخ قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ادارے کی باصلاحیت لیڈر شپ کے صرف اس ایک جرأت مندانہ فیصلے کی وجہ سے اوقاف کی آمدن میں فروری مارچ 2023ء کے مہینوں میں 49فیصد اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے یہ ثابت کر دیا کہ ادارے کے ورکر جتنا معاشی پریشانیوں سے جتنے آزاد ہوں گے ادارے کی ترقی کے لئے اتنے ہی خلوص سے کام کریں گے۔ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں جائز اضافے کے بعد محکمہ اوقاف کے وسائل میں تاریخی اضافہ ہوا اور مینجمنٹ اضافی آمدن کو صوبے بھر مساجد اور مزارات کی تزئین و آرائش پر خرچ کر رہی ہے۔ محکمہ اوقاف مساجد اور مزارات کیتزئین کے لئے ایک ارب کی خطیر رقم خرچ کر رہا ہے۔لاہور میں داتا دربار کمپلیکس میں 193ملین روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے تو صوبے میں قرآن محل بنانے کے لئے 47ملین مختص کئے گئے ہیں۔ لاہور میں خواجہ غلام فرید ؒ کوٹ مٹھن شریف کی درگاہ میں زائرین کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لئے 69.3ملین روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔کسی بھی ادارے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی مستقل خود انحصاری کے لئے دیرا اقدامات کئے جائیں تاکہ مستقبل میں ادارہ مالی دشواریوں سے بچا رہے۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اور ادارے کو مالی وسائل میں اضافے کے لئے بھی دیرپا اقدامات کر رہے ہیں محکمہ اوقاف نے ملازمین جی پی فنڈ کی مد میں حاصل ہونے والے 78لاکھ 24ہزار 500روپے 2010ء میں ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کی تھی۔ جو 2020ء میں جمود ہو گئی تھی مگر مختلف وجوہ کی بنا پر رقم نہیں مل رہی تھی۔ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے معاملہ پر توجہ دی اور اپنی ٹیم کو ٹارگٹ دیا کہ رقم کے حصول کے لئے کام تیز کیا جائے اس سلسلے میں متعدد بار سپیشل اسسٹنٹ کو فیڈرل گورنمنٹ سے میٹنگ کیں کاوشیں رنگ لائیں اور سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نشینل سیونگ نے 3ارب 77کروڑ 3لاکھ 98ہزار ایک سو روپے کی خطیر رقم منافع سمیت جاری کر دی، جس سے ملازمین کی پینشن اور تنخواہوں میں ادائیگی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ سیکرٹری اوقاف نے اپنی صلاحیت اور ٹیم ورک سے ثابت کر دیا کہ حالات جتنے بھی خراب اور راستہ جتنا بھی دشوار ہو خلوص نیت اور ٹیم ورک سے منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کی قیادت میں محکمہ اوقاف نہ صرف خود انحصاری کی منزل کی طرف گامزن ہے بلکہ دیگر اداروں کے لئے مثال ہے ایگزیکٹو میں ٹیم منتخب کرنے کی صلاحیت ہو اور ٹارگٹ دے کر ٹیم کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا جائے تو منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔